سنہ 2004 میں ریلیز ہوئی فلم ویر زارا جہاں بہترین ہدایت کاری، کہانی اور اداکاری کی وجہ سے پوری دنیا میں پسند کی گئی۔ وہیں اس فلم کی کہانی نے بھارت اور پاکستان کے درمیان تعلقات اور دونوں ممالک کے باشندگان کو ہورہی مشکلات کو بھی موضوع بحث بنایا۔ اگرچہ اس فلم کو منظر عام پر آئے 17 سال ہو چکے ہیں۔ تاہم زمینی حقائق ابھی بھی ویسے ہی ہیں۔ آج ہم آپ کو ملواتے ہیں کشمیر کے ویر زارا سے۔
سرینگر کے رہنے والے حمزہ فاروق اور لاہور کی رہنے والی ماہ نور کا نکاح سنہ 2014 میں دھوم دھام سے ہوا۔ نکاح کے بعد ماہ نور کو بھارتی شہریت حاصل کرنے کے لیے آٹھ برس کا انتظار کرنا تھا۔ اس دوران وہ نوری ویزا پر اپنے شوہر کے ساتھ سرینگر میں رہتی تھیں اور ہر سال پاکستان تین مہینے کے لیے اپنے ویزا میں توسیع کرانے کے لئے جاتی تھیں۔
نوری ویزا ایک عارضی ویزا ہوتا ہے جو صرف ان خواتین کو ملتا ہے جن کا نکاح پاکستان سے باہر ہوا ہو۔ گزشتہ برس مارچ مہینے کی 2 تاریخ کو ماہ نور ہمیشہ کی طرح اپنے ملک پاکستان کے لیے روانہ ہوئی۔ تاہم انہیں دوبارہ واپس بھارت نہیں آنے دیا گیا۔ وجہ عالمی وبا کورونا وائرس اور بھارت اور پاکستان کے درمیان ناسازگار تعلقات تھے۔
حمزہ کی چھوٹی بہن سعدیہ فاروق نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ 'میری بھابھی اور بھائی ایک برس کے بعد امسال مارچ مہینے کی پہلی تاریخ کو دبئی میں ملے۔ میری بھابھی کو پہلے ترکی جانا پڑا کیونکہ دبئی نے پاکستان سے آنے والے شہریوں پر عالمی وبا کے پیش نظر پابندی عائد کر رکھی ہے۔ آج بھائی اور بھابھی ایک ساتھ ہیں اور خوش ہیں۔'
ان کا مزید کہنا تھا کہ 'ہمارا کنبہ بکھر چکا ہے۔ کوئی دبئی میں ہے، کوئی پاکستان میں اور کوئی یہاں تو کوئی وہاں۔ ہم نے بھارتی حکومت اور پاکستانی حکومت دونوں کو لکھا، تاہم سبھی کوششیں بے سود ثابت ہوئیں۔ میری بھابھی گھر سے دور ذہنی دباؤ کا شکار بھی ہو رہی تھی، اس لئے ہم نے یہ فیصلہ کیا کہ میرے بھائی کو ان سے ملنے دبئی جانا چاہیے۔