جموں و کشمیر میں گزشتہ چند روز سے عوام میں کشمیر کی تقسیم کے متعلق خدشات پیدا ہوئے ہیں اور شہر و دیہات میں کئی چہ میگوئیاں کی جارہی ہے جس سے عوام کے ذہن مزید منتشر ہوئے ہیں- جس کو لیکر عوامی و سیاسی حلقوں نے حکومت سے وضاحت طلب کی ہے۔
'کشمیر میں جاری سراسیمگی پر حکومت وضاحت دے' دراصل دو روز قبل جموں و کشمیر کے ایل جی منوج سنہا اور پولیس سربراہ دلباغ سنگھ، چیف سیکریٹری ارون کمار مہتا اور سابق چیف سیکریٹری بی وی آر سبرامنیم اے ڈی جی پی سی آئی ڈی آر آر سوین نئی دہلی روانہ ہوئے-ان اعلیٰ حکام نے وہاں وزیر داخلہ کے علاوہ ہوم سیکرٹری کے ساتھ ملاقاتیں کی۔
اسی دوران خبریں شائع ہوئیں کہ سی آر پی ایف اور دیگر نیم فوجی اہلکاروں کے 200 کمپنیاں جموں و کشمیر میں بیرونی ریاستوں سے تعینات کی جارہی ہے-اس صورتحال میں عوامی و سیاسی حلقوں میں انتشار پھیل گیا اور سوشل میڈیا کے علاوہ مختلف حلقوں میں متعدد چہ میگوئیاں کی جارہی ہے-
اسی بیچ افواہوں نے جنم دیا کہ وادی کشمیر کو منقسم کیا جائے گا اور جموں صوبے کو علیحدہ ریاستی درجہ دیا جائے گا- تاہم انتظامیہ میں تعینات پولیس و سول افسران نے کہا کہ یہ محض افواہیں ہیں جن پر عوام کو غور نہیں کرنا چاہیے- لیکن کسی بھی افسر نے کیمرے کے سامنے آنے سے انکار کیا اور نام خفیہ رکھنے کے شرط پر بات کی۔
وہیں پولیس کے انسپکٹر جنرل وجے کمار نے بتایا ہے کہ نیم فوجی دستوں مغربی بنگال سے واپس جموں و کشمیر لایا جارہا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ایل جی اور پولیس سربراہ کا دہلی روانہ ہونا امرناتھ یاترا کے سلسلے میں ہے اور انہیں مرکزی سرکار کو جموں و کشمیر کی سیکورٹی و کورونا وائرس کی صورتحال کا خاکہ پیش کرنا تھا۔
دراصل 26 جون سے امرناتھ یاترا منعقد کی جانے والی ہے لیکن کورونا وائرس کی دوسری لہر کے پس منظر پر ابھی مرکزی سرکار یا امرناتھ شرائن بورڈ نے اس کو منعقد یا منسوخ کرنے پر کوئی حتمی فیصلہ نہیں لیا ہے۔
کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے پاداش میں گزشتہ ماہ امرناتھ شرائن بورڈ پر یاترا کے لئے اندراج بند کیا تھا جس کے بعد کوئی فیصلہ نہیں لیا گیا ہے- وادی کے عوامی و سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ انتظامیہ کو افواہوں اور خدشات کو دور کرنے کے لیے لوگوں کے سامنے آکر صاف بیان دینا چاہیے-