جموں و کشمیر کے دارالحکومت سرینگر کے لال چوک میں واقع گھنٹہ گھر کو ایک نجی کمپنی نے 1979 میں اس وقت کے وزیراعلیٰ شیخ محمد عبداللہ کے دور اقتدار میں تعمیر کیا تھا جہاں دہائیوں قبل انہوں نے بھارت کے پہلے وزیراعظم جواہر لال نہرو کی شان میں قصیدے پڑھے تھے۔
سوشلزم سے متاثرہ سیاسی قیادت نے روس کے ریڈ اسکوائر سے متاثر ہو کر لال چوک کو وجود میں لایا تھا اور چوک میں ایک گھنٹہ گھر نے اس مقام کی شان کو دوبالا کردیا اور دنیا کے بڑے شہروں کی طرح اسے بھی ایک امتیازی حاصل ہوا لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ اس گھنٹہ گھر کی گھڑیاں شاذ و نادر ہی صحیح وقت دکھاتی ہیں۔ کئی بار چاروں اطراف میں نصب کی گئی گھڑیاں تبدیل بھی کی گئیں، یہاں تک کہ الیکٹرانک گھڑیاں بھی لگائی گئیں لیکن ان کی سوئیاں کبھی وقت کے مطابق نہیں چل سکیں۔ اب ایک بار پھر ان گھڑیوں کو تبدیل کیا جارہا ہے۔
مقامی باشندگان اس اقدامات کا خیرمقدم کر رہے ہیں لیکن گھڑیوں کی دیکھ ریکھ کرنے کے حوالے سے انتظامیہ سے زیادہ اُمید نہیں رکھتے۔ لال چوک کے رہنے والے محمد یوسف کا کہنا تھا کہ 'یہ پانچویں بار ہے جب گھڑیوں کو تبدیل کیا جا رہا ہے۔ اس سے شہر کے مرکز کی شان میں اضافہ ہوتا ہے۔ انتظامیہ گھڑیاں نصب کرنے کے بعد ان کو بھول جاتی ہے۔'