کشمیر میں سنہ 2023 میں کچھ ایسے اہم واقعات پیش آئے جو دنیا بھر میں شہ سرخیوں میں رہے۔ ان میں بین الاقوامی اجلاس جی ٹوینٹی، دفعہ 370 کی منسوخی کی سماعت اور اس پر حتمی فیصلہ، کوکرناک انکاؤنٹر اور ریاسی ضلع میں لیتھیم کی موجودگی جیسی واقعات خبروں کی زینت بنے رہے۔
جی ٹوینٹی سمٹ (G20 Summit)
بھارت، سنہ 2023 کی جی ٹونٹی اجلاس کے لئے ایک برس تک میزبان رہا۔ جی ٹونٹی کے یہ اجلاس مختلف شہروں میں منعقد ہوئے۔ جموں کشمیر کی گرمائی دارلحکومت سرینگر بھی ان میزبان شہروں میں سے ایک تھا۔ اس شہر میں مئی میں جی ٹونٹی اجلاس کا انعقاد کیا گیا۔ اگرچہ دیگر شہروں میں جی ٹونٹی سمٹ منعقد ہوئے تاہم یہ اجلاس معمول کی خبروں کی طرح شائع کئے گئے اور ان شہروں میں رہنے والے لوگوں کو بھی ان اجلاس میں کوئی دلچسپی نہیں رہی۔ لیکن سرینگر میں منعقد ہونے والا جی ٹونٹی اجلاس عالمی میڈیا پر چھایا رہا۔ مرکزی سرکار اور جموں کشمیر انتظامیہ نے بھی اس اجلاس کی وسیع تشہیر کی۔ چونکہ یہ اجلاس کشمیر میں دفعہ 370 کی منسوخی کے بعد منعقد ہوا، مرکزی سرکار نے اس کو کشمیر کی بہتر صورتحال اور امن و امان سے منسلک کیا۔
یہ اجلاس پاکستان، چین اور ترکیہ کی وجہ سے متنازعہ بھی رہا۔ چین اور پاکستان نے کہا کہ ’’کشمیر جیسے متنازعہ خطے میں بھارت کوئی بین الاقوامی سمٹ یا اجلاس منعقد نہیں کر سکتا ہے۔‘‘ چین اور ترکیہ نے اگرچہ بھارت کے دیگر شہروں میں ہونے والے جی ٹونٹی اجلاس میں شرکت کی، تاہم کشمیر کے شہر سرینگر میں ان ممالک نے اجلاس میں شرکت کرنے سے بائکاٹ کیا۔
سرینگر میں جی ٹوینٹی اجلاس کی میزبانی کے لیے جموں کشمیر انتظامیہ نے کروڑوں روپئے خرچ کرکے شہر سرینگر کے لالچوک اور بیلوارڈ روڈ کو رنگ و روغن کرکے جی ٹونٹی مہمانوں کے لئے جاذب نظر بنایا۔
دفعہ 370 کی سماعت و فیصلہ
حکمران جماعت بی جے پی نے اپنی پارٹی کا ایک بنیادی اور دیرینہ منشور یعنی دفعہ 370 کی منسوخی کو یقینی بنایا۔ 5 اگست 2019 کو دفعہ 370 اور 35 اے کو منسوخ کیا گیا۔ جبکہ جموں کشمیر ریاست کو دو مرکز کے زیر انتظام خطوں میں بھی تقسیم کیا گیا۔ اسی روز وزیر داخلہ امیت شاہ نے جموں کشمیر امورات چلانے کے لئے جموں کشمیر تنظیم نو قانون بل بھی پیش کی، جس کو پارلیمان نے پاس کرکے قانونی شکل دی۔ دفعہ 370 کو بھارت کے آئین میں خصوصی حیثیت فراہم کرتا تھا جس کے مطابق جموں کشمیر کا الگ آئین اور پرچم بھی تھا۔
دفعہ 370 کی منسوخی سے ایک روز قبل جموں کشمیر انتظامیہ نے وادی کے تمام بڑے سیاسی لیڈران پر کریک ڈاؤن کرکے انہیں حراست میں لیا۔ جموں کشمیر کے تین سابق وزراء اعلیٰ فاروق عبد اللہ، عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی پر پبلک سیفٹی ایکٹ عائد کرکے انہیں قید کیا گیا۔ تاہم رہائی کے بعد نیشنل کانفرنس، پی ڈی پی، پیپلز کانفرنس اور دیگر کارکنان نے دفعہ 370 کی منسوخی کے خلاف سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ عدالت عظمیٰ نے چار برسوں کے بعد دفعہ 370 کی سماعت 2 اگست2023 کو شروع کی۔ عدالت نے پانچ رکنی آئینی بینچ قائم کی جس کی صدارت چیف جسٹس آف انڈیا دھننجے یشونت چندرچود نے کی۔ پنچ نے 16 دنوں میں لگاتار اس بڑے معاملے کی سماعتیں کی لیکن فیصلہ التوا میں رکھا۔