دہلی میں مقیم کشمیری صحافیوں اور جموں و کشمیر کے بارے میں سرکاری پالیسی پر تنقید کرنے والے سول سوسائٹی کے ایک ممتاز کارکن کے علاوہ، وادی کشمیر کے 25 سے زیادہ افراد کو ایک نامعلوم سرکاری ایجنسی کے ذریعہ 2017 اور 2019 کے وسط کے دوران مبینہ جاسوسی کے طور پر منتخب کیا گیا تھا۔ یہ انکشاف این ایس او کے پیگاسس پروجیکٹ کی تحقیقات کے دوران سامنے آئی ہے۔
فرانس میں قائم صحافت کے غیر منافع بخش تنظیم فاربیڈن اسٹوریز اور انسانی حقوق کے بین الاقوامی ادارے ایمنسٹی انٹرنیشنل نے 50،000 سے زائد فون نمبرز تک رسائی حاصل کرنے اور ان کی تحقیقات کے بعد یہ انکشاف کیا ہے۔ آن لائن نیوز پورٹل دی وائر کے مطابق دس ممالک میں درجنوں افراد، جن میں صحافی، انسانی حقوق کے کارکن اور سیاسی رہنما شامل ہیں، کو ممکنہ نگرانے (جاسوسی) کے لئے منتخب کیا گیا تھا۔
دی وائر کے مطابق کشمیر سے تعلق رکھنے والے اہم علیحدگی پسند رہنماؤں، سیاستدانوں، انسانی حقوق کے کارکنوں، صحافیوں اور کاروباری شخصیات بھی اس فہرست میں شامل ہیں جن کو کسی نامعلوم ایجنسی نے جاسوسی کرنے کے لئے منتخب کیا ہے۔
دی وائر کے مطابق علیحدگی پسند رہنما بلال لون اور مرحوم ایس اے آر گیلانی کے فون کا فارنسک تجزیہ کرنے میں وہ کامیاب رہے۔ گیلانی، دہلی یونیورسٹی میں لیکچرار کی حیثیت سے کام کرتے تھے اور 2018 میں ان کا انتقال ہوگیا۔
لون کے فون ڈیٹا کی جانچ پڑتال ایمنسٹی انٹرنیشنل سیکیورٹی لیب نے کی۔ اگرچہ یہ فون سیٹ وہ نہیں ہے جس کو جاسوسی کے لئے منتخب کیا گیا تھا تاہم فارنسک تجزیہ میں پیگاسس کی موجودگی کے نشانات ملے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:Pegasus: پیگاسس کے ذریعہ کشمیری صحافیوں کی بھی مبینہ جاسوسی کی گئی
اگست 2019 میں مرکزی حکومت نے جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کو منسوخ کیا تھا جس کے بعد سیکڑوں سیاسی مخالفین اور کارکنوں کو جیل بھیجا گیا تھا۔
بلال لون نے دی وائر کو بتایا کہ وہ فی الحال سیاسی محاذ سے ہٹ گئے ہیں اور اپنی مشہور بیکری دکان پر توجہ مرکوز کررہے ہیں۔ فارنسک تجزیہ سے پتہ چلتا ہے کہ ان کے فون کو پیگاسس سے نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی تھی جب وہ سیاست میں سرگرم تھے۔
لون نے دی وائر کو بتایا 'میں فون ٹیپنگ کے بارے میں افواہیں سنتا تھا۔ مجھے کبھی ایسا نہیں لگا کہ اس کا میں بھی نشانہ بن جاؤں۔ اس معاملہ پر کچھ کرنے کی میری حیثیت نہیں ہے۔'
ایس اے آر گیلانی کے فون میں فروری 2018 اور جنوری 2019 کے درمیان پیگاسس اسپائی ویئر کے واضح نشانات ملے ہیں۔
لیک ڈیٹا بیس پر موجود دیگر افراد میں پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی سربراہ اور جموں و کشمیر کی سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کے اہل خانہ کے کم از کم دو ارکان شامل ہیں۔
نگرانی کے ممکنہ اہداف کے طور پر ان کا انتخاب اس وقت ہوا جب مفتی جموں و کشمیر کی وزیر اعلی تھیں اور بی جے پی کے ساتھ اتحاد میں تھیں۔ مفتی کے کنبہ کے افراد کو حکومت کے خاتمہ سے محض مہینوں قبل نگرانی کے لئے منتخب کیا گیا تھا۔ جون 2018 میں بی جے پی نے اتحاد سے دستبرداری کی تھی۔
جب محبوبہ سے پوچھا گیا کہ کیا ان کے خیال میں حکومت گرنے اور مبینہ جاسوسی کے درمیان کو لنک ہے تو مفتی نے کوئی تبصرہ کرنے سے انکار کردیا۔
تاہم انہوں نے کہا کہ کشمیریوں کے لئے جاسوسی کوئی نئی بات نہیں ہے۔
جموں و کشمیر اپنی پارٹی کے صدر الطاف بخاری کے بھائی طارق بخاری بھی اس فہرست میں شامل ہیں۔
الطاف، جو پہلے پی ڈی پی کے ساتھ تھے پی ڈی پی - بی جے پی حکومت میں وزیر تھے لیکن انہیں "پارٹی مخالف سرگرمیوں" کے سبب 2019 میں پارٹی سے نکال دیا گیا تھا۔ اس کے بعد، 2020 میں انہوں نے اپنی پارٹی کا آغاز کیا جس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ بی جے ہی کے قریب ہے۔