اردو

urdu

ETV Bharat / state

Pegasus Project: متعدد کشمیریوں کے فونز کی جاسوسی کی کوشش ہوئی - Amnesty International security lab

بلال لون اور میر واعظ جیسے علیحدگی پسندوں کے علاوہ، جاسوسی کے ممکنہ اہداف کی فہرست میں دہلی میں مقیم - حکومت کی کشمیر پولیسی پر تنقید کرنے والے سول سوسائٹی کے ممبر، صحافی اور کچھ مین اسٹریم سیاستدانوں کے کنبہ کے افراد شامل ہیں۔

Pegasus Project: متعدد کشمیریوں کے فونز کی جاسوسی کی کوشش ہوئی
Pegasus Project: متعدد کشمیریوں کے فونز کی جاسوسی کی کوشش ہوئی

By

Published : Jul 23, 2021, 2:30 PM IST

Updated : Jul 23, 2021, 5:26 PM IST

دہلی میں مقیم کشمیری صحافیوں اور جموں و کشمیر کے بارے میں سرکاری پالیسی پر تنقید کرنے والے سول سوسائٹی کے ایک ممتاز کارکن کے علاوہ، وادی کشمیر کے 25 سے زیادہ افراد کو ایک نامعلوم سرکاری ایجنسی کے ذریعہ 2017 اور 2019 کے وسط کے دوران مبینہ جاسوسی کے طور پر منتخب کیا گیا تھا۔ یہ انکشاف این ایس او کے پیگاسس پروجیکٹ کی تحقیقات کے دوران سامنے آئی ہے۔

فرانس میں قائم صحافت کے غیر منافع بخش تنظیم فاربیڈن اسٹوریز اور انسانی حقوق کے بین الاقوامی ادارے ایمنسٹی انٹرنیشنل نے 50،000 سے زائد فون نمبرز تک رسائی حاصل کرنے اور ان کی تحقیقات کے بعد یہ انکشاف کیا ہے۔ آن لائن نیوز پورٹل دی وائر کے مطابق دس ممالک میں درجنوں افراد، جن میں صحافی، انسانی حقوق کے کارکن اور سیاسی رہنما شامل ہیں، کو ممکنہ نگرانے (جاسوسی) کے لئے منتخب کیا گیا تھا۔

دی وائر کے مطابق کشمیر سے تعلق رکھنے والے اہم علیحدگی پسند رہنماؤں، سیاستدانوں، انسانی حقوق کے کارکنوں، صحافیوں اور کاروباری شخصیات بھی اس فہرست میں شامل ہیں جن کو کسی نامعلوم ایجنسی نے جاسوسی کرنے کے لئے منتخب کیا ہے۔

دی وائر کے مطابق علیحدگی پسند رہنما بلال لون اور مرحوم ایس اے آر گیلانی کے فون کا فارنسک تجزیہ کرنے میں وہ کامیاب رہے۔ گیلانی، دہلی یونیورسٹی میں لیکچرار کی حیثیت سے کام کرتے تھے اور 2018 میں ان کا انتقال ہوگیا۔

بلال لون

لون کے فون ڈیٹا کی جانچ پڑتال ایمنسٹی انٹرنیشنل سیکیورٹی لیب نے کی۔ اگرچہ یہ فون سیٹ وہ نہیں ہے جس کو جاسوسی کے لئے منتخب کیا گیا تھا تاہم فارنسک تجزیہ میں پیگاسس کی موجودگی کے نشانات ملے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:Pegasus: پیگاسس کے ذریعہ کشمیری صحافیوں کی بھی مبینہ جاسوسی کی گئی

اگست 2019 میں مرکزی حکومت نے جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کو منسوخ کیا تھا جس کے بعد سیکڑوں سیاسی مخالفین اور کارکنوں کو جیل بھیجا گیا تھا۔

بلال لون نے دی وائر کو بتایا کہ وہ فی الحال سیاسی محاذ سے ہٹ گئے ہیں اور اپنی مشہور بیکری دکان پر توجہ مرکوز کررہے ہیں۔ فارنسک تجزیہ سے پتہ چلتا ہے کہ ان کے فون کو پیگاسس سے نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی تھی جب وہ سیاست میں سرگرم تھے۔

لون نے دی وائر کو بتایا 'میں فون ٹیپنگ کے بارے میں افواہیں سنتا تھا۔ مجھے کبھی ایسا نہیں لگا کہ اس کا میں بھی نشانہ بن جاؤں۔ اس معاملہ پر کچھ کرنے کی میری حیثیت نہیں ہے۔'

ایس اے آر گیلانی کے فون میں فروری 2018 اور جنوری 2019 کے درمیان پیگاسس اسپائی ویئر کے واضح نشانات ملے ہیں۔

لیک ڈیٹا بیس پر موجود دیگر افراد میں پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی سربراہ اور جموں و کشمیر کی سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کے اہل خانہ کے کم از کم دو ارکان شامل ہیں۔

نگرانی کے ممکنہ اہداف کے طور پر ان کا انتخاب اس وقت ہوا جب مفتی جموں و کشمیر کی وزیر اعلی تھیں اور بی جے پی کے ساتھ اتحاد میں تھیں۔ مفتی کے کنبہ کے افراد کو حکومت کے خاتمہ سے محض مہینوں قبل نگرانی کے لئے منتخب کیا گیا تھا۔ جون 2018 میں بی جے پی نے اتحاد سے دستبرداری کی تھی۔

محبوبہ مفتی

جب محبوبہ سے پوچھا گیا کہ کیا ان کے خیال میں حکومت گرنے اور مبینہ جاسوسی کے درمیان کو لنک ہے تو مفتی نے کوئی تبصرہ کرنے سے انکار کردیا۔

تاہم انہوں نے کہا کہ کشمیریوں کے لئے جاسوسی کوئی نئی بات نہیں ہے۔

جموں و کشمیر اپنی پارٹی کے صدر الطاف بخاری کے بھائی طارق بخاری بھی اس فہرست میں شامل ہیں۔

الطاف، جو پہلے پی ڈی پی کے ساتھ تھے پی ڈی پی - بی جے پی حکومت میں وزیر تھے لیکن انہیں "پارٹی مخالف سرگرمیوں" کے سبب 2019 میں پارٹی سے نکال دیا گیا تھا۔ اس کے بعد، 2020 میں انہوں نے اپنی پارٹی کا آغاز کیا جس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ بی جے ہی کے قریب ہے۔

اس کے بھائی، طارق، جو مبینہ جاسوسی کی لسٹ میں تھے، ایک تاجر اور سیاسی رہنما ہے، جسے اپریل 2019 میں قومی تحقیقاتی ایجنسی نے 'عسکریت پسندی کی مالی اعانت' کے معاملے میں پوچھ گچھ کی تھی۔ اگست 2019 میں جموں و کشمیر کی خصوصی پوزیشن ختم ہونےکے بعد وہ مرکزی حکومت کے فیصلے کی پشت پناہی کرنے والے چند ممتاز کشمیریوں میں سے ایک تھے۔

اس کے علاوہ، کشمیر کے سب سے بااثر علیحدگی پسند رہنما سید علی شاہ گیلانی کے کنبہ کے کم از کم چار افراد - جن میں اس کے داماد، صحافی افتخار گیلانی اور ان کے بیٹے، سائنسدان سید نسیم گیلانی مبینہ جاسوسی کی لسٹ میں شامل ہیں۔

نسیم نے دی وائر کو بتایا کہ انہیں لگتا ہے کہ وہ ممکنہ نگرانی کا نشانہ ہوسکتے ہیں۔ "شاید میرے والد کے سیاسی نظریات کی وجہ سے مجھ پر جاسوسی کی گئی ہو۔"

حریت کانفرنس کا موجودہ سربراہ میر واعظ عمر فاروق 2017 اور 2019 کے درمیان نگرانی کا ایک ممکنہ ہدف تھے۔

پانچ اگست 2019 سے سید علی گیلانی اور فاروق دونوں نظربند تھے۔

میرواعظ عمر فاروق

ریکارڈوں سے پتا چلتا ہے کہ فاروق کا ڈرائیور بھی ممکنہ طور پر نگرانی کا نشانہ تھا۔

فاروق کی سربراہی میں حریت کانفرنس قریب دو درجن کشمیری علیحدگی پسند تنظیموں کا اتحاد ہے جو ماضی میں بھارتی حکومت کے ساتھ باضابطہ بات چیت میں شریک ہوئے تھے۔

جب دی وائر نے ان سے رابطہ کیا تو فاروق کے ایک سینئر معاون نے کہا کہ وہ "پریشان ہیں" کہ ان کے "بنیادی حقوق کو داؤ پر لگا دیا گیا ہے"۔

وادی سے تعلق رکھنے والے انسانی حقوق کے ممتاز کارکن وقار بھٹی بھی نگرانی کا ایک ممکنہ ہدف تھے۔ بھٹی کا خیال ہے کہ ممکنہ طور پر ان کی سرگرمی کی وجہ سے انہیں نشان زد کیا گیا تھا۔

پیگاسس پروجیکٹ کے اعداد و شمار سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ سائبر سرویلنس پروگرام میں کم سے کم پانچ کشمیری صحافی، جن میں انڈین ایکسپریس کے مزمل جلی ، ہندوستان ٹائمز کے اورنگزیب نقشبندی، افتخار گیلانی سابقہ ڈی این اے اور پی ٹی آئی کے سمیر کول شامل تھے۔ پانچویں صحافی کا نام ان کی درخواست پر ظاہر نہیں جارہا ہے۔ دہلی میں مقیم کشمیر سے تعلق رکھنے والے سیاسی مبصر شبیر حسین بھی اس فہرست میں شامل ہیں۔

پی ٹی آئی کے چیف ایگزیکٹو اور چیف ایڈیٹر وجئے جوشی نے کہا کہ 'اگر یہ سچ ہے (فون ممکنہ طور پر نگرانی کے لئے منتخب کیا گیا تھا)، تو ہم اس کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہیں کیونکہ یہ کسی فرد کی رازداری کی خلاف ورزی ہوگی اور آئین کے ذریعے دی گئی آزادیوں پر حملہ ہے۔'

یہ بھی پڑھیں: ایمنسٹی انٹرنیشنل اپنی تحقیقات پر قائم

حکومت کی کشمیر پالیسی پر تنقید کرنے والے دہلی سے تعلق رکھنے والی ایک سول سوسائٹی ممبر کا ایک ٹیلیفون نمبر بھی 2018 اور 2019 کے ڈیٹا بیس میں شامل ہے۔ وائر نے اس نمبر کی تصدیق کی لیکن ان کی درخواست پر وہ اپنی شناخت ظاہر نہیں کرنا چاہتے۔

سری نگر میں مقیم ایک دستکاری کاروباری شخص کے فون کو بھی ممکنہ طور پر نشانہ بنایا گیا۔ انہوں نے اس پر کوئی تبصرہ کرنے سے انکار کردیا۔

ممکنہ نگرانی کے لئے منتخب کردہ دیگر افراد میں میرواعظ کی زیرقیادت حریت سے وابستہ ایک بااثر شیعہ عالم اور ممتاز علیحدگی پسند رہنما ظفر اکبر بھٹ بھی شامل ہیں۔

ریکارڈ سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ زراعی یونیورسٹی کے ایک فیکلٹی ممبر اور دو سماجی کارکن بھی ممکنہ نگرانی کے لئے منتخب کیے گئے تھے۔

عالمی میڈیا کی انجمن کی ایک رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ 40 سے زیادہ بھارتی صحافیوں کے فونز کی جاسوسی کی گئی اور فارنسک ٹیسٹنگ سے اس بات کی تصدیق ہوئی ہے کہ پیگاسس اسپائی ویئر کا استعمال کرتے ہوئے کسی نامعلوم ایجنسی نے درجنوں بھارتی صحافیوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کی جاسوسی کی ہے۔

Last Updated : Jul 23, 2021, 5:26 PM IST

ABOUT THE AUTHOR

...view details