سرینگر:جموں وکشمیر میں آخری اسمبلی انتخابات نو برس قبل یعنی 2014 میں ہوئے تھے۔ 19 جون 2018 کو ریاست میں اس وقت صدر راج نافذ کیا گیا جب بی جے پی نے پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی صدر محبوبہ مفتی کی قیادت والی مخلوط حکومت سے علیحدگی اختیار کی اور اسمبلی میں اکثریت نہ ہونے کی صورت میں وزیر اعلی کو اپنے عہدے سے مستعفی ہونا پڑا اور اس وقت کے گورنر سیتہ پال ملک نے اسمبلی کو برخاست کردیا۔
اس کے بعد مرکزی حکومت نے 5 اگست 2019 میں جموں و کشمیر کی آئینی حیثیت ختم کرکے ریاست کو دو مرکزی زیر انتظام علاقوں میں تقسیم کیا جو کہ اب جموں وکشمیر اور لداخ یوٹیز کہلاتی ہیں۔ایسے میں گزشتہ 5 برس کے زائد عرصے سے جموں وکشمیر کے عوام جہموری حکومت سے محروم ہیں۔
اپنی پارٹی کے سینیئر رہنما اور نائب صدر غلام حسن میر کہتے ہیں کہ وزیراعظم نریندر مودی کی قیادت والی بی جے پی حکومت کی یقین دہانیوں کے باوجود بھی یہاں اسمبلی انتخابات ابھی ممکن نہیں ہو پارہے ہیں۔
جموں وکشمیر کی تقریباً سبھی سیاسی جماعتوں کے انتخابات منعقد کرانے کے مطالبے کے باوجود الیکشن کمیشن امسال بھی اسمبلی انتخابات کرانے کے موڈ میں نظر نہیں آرہا یے، کیونکہ حال ہی میں اسٹیٹ الیکشن کمشن نے یہ اعلان کیا کہ رواں برس کے آخر میں پنچایتی، بلدیاتی اور پارلیمانی انتخابات کرائے جا سکتے ہیں البتہ کمشنر نے اسمبلی انتخابات سے متعلق کوئی بھی بات نہیں کی۔ایسے میں بی جے پی کو چھوڑ یہاں کی سبھی اپوزیشن جماعتیں بے حد ناراض نظر آرہی ہیں۔
نیشنل کانفرس کے ترجمان اعلی تنویر صادق مرکزی حکومت پر طنز کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ حکمران بی جے پی جموں وکشمیر میں اسمبلی انتخابات کرانے سے اس لیے کترا رہی ہے کیونکہ انتخابات میں بی جے پی کو شکست سے دوچار ہونے کا خدشہ ہی نہیں بلکہ یقین ہے۔
مزید پڑھیں: