نیشنل کانفرنس کے صدر فاروق عبداللہ نے وادی کشمیر میں گوشت کی قلت پر انتظامیہ کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا: ’’انتظامیہ کی نا اہلی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ سرکاری مشینری گزشتہ پانچ ماہ سے گوشت کی سپلائی کو یقینی بنانے میں ناکام ہو چکی ہے۔‘‘
انہوں نے انتظامیہ کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا کہ پانچ ماہ قبل انتظامیہ نے گوشت کی قیمتوں کا تعین تو کیا۔ تاہم اس پر گوشت فروخت کرانے میں ناکام رہی اور اب پانچ ماہ کا عرصہ گزر جانے کے بعد قیمتوں کے تعین کے لیے میٹنگیں بلائی جا رہی ہیں۔
فاروق عبداللہ نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’’اس بات کی تحقیقات ہونی چاہئے کہ کن بنیادوں پر انتظامیہ نے گوشت کا نرخ مقرر کیا تھا۔‘‘
مزید پڑھیں؛ مٹن کاروبار کے مسئلے کا واحد حل: 'دو قدم تم بھی چلو، دو قدم ہم بھی چلیں'
قابل ذکر ہے کہ گوشت کی قیمتوں کو لے کر مٹن ڈیلرز اور انتظامیہ کے درمیان رسہ کشی کے نتیجے میں قصابوں کی جانب سے مسلسل ہڑتال سے عام لوگوں کو پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
محکمہ امور صارفین کی جانب سے وادی کشمیر میں گوشت کی قیمت 450 سے480 روپے فی کلو مقرر کرنے کے باوجود قصاب گوشت کو 600 روپے فی کلو کے حساب سے فروخت کر رہے تھے جس پر انتظامیہ نے قصابوں کی سرزنش شروع کی، تاہم گوشت فروشوں نے قیمت بڑھائے جانے کی مانگ کی۔
گوشت کی قیمتوں پر اتفاق نہ ہونے کے نتیجے میں قصابوں نے اپنی دکانیں بند کر کے ہڑتال شروع کر دی ہے۔ اور گزشتہ ایک ماہ سے زائد عرصے سے گوشت فروشوں کی دکانیں بند ہونے کے نتیجے میں وادی کشمیر میں گوشت کی قلت پیدا ہو گئی ہے۔