عدالت عظمیٰ نے بدھ کے روز جموں و کشمیر انتظامیہ کو جموں کشمیر ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر میاں عبدالقیوم کی پبلک سیفٹی ایکٹ (پی ایس اے) کی مدت مکمل ہونے کے بعد ان کو حراست میں رکھنے کے سلسلہ میں جواب طلب کیا ہے۔
پی ایس اے کی میعاد ختم ہونے کے بعد میاں قیوم کی حراست پر وضاحت طلب
بینچ سے 10 دن کی مہلت مانگتے ہوئے سالیسیٹر جنرل تُشار مہتا نے دعویٰ کیا کہ انہیں ابھی تک نہ تو عرضی کی نقل حاصل ہوئی ہے اور نہ ہی یہ واضح ہوا ہے کہ عبدالقیوم کا نظریہ بدل چکا ہے۔
عدالت نے یہ سوال انتظامیہ سے قیوم کی جانب سے ان کی حراست کے خلاف دائر عرضی پر سماعت کے دوران پوچھا۔ عبدالقیوم گزشتہ برس 5 اگست سے پی ایس اے کے تحت زیر حراست ہیں۔
جسٹس سنجے کشن کول اور اندو ملہوترا پر مشتمل عدالت عظمیٰ کی بینچ نے عبدالقیوم کی عمر، پی ایس اے کے تحت حراست کی مدت اور عالمی وبا کورونا وائرس کو مد نظر رکھتے ہوئے انتظامیہ سے جواب طلب کیا ہے۔ عدالت نے معاملے کی اگلی سماعت رواں مہینے کی 23 تاریخ کو مقرر کی ہے۔
بینچ سے 10 دن کی مہلت مانگتے ہوئے سالیسیٹر جنرل تُشار مہتا نے دعویٰ کیا کہ انہیں ابھی تک نہ تو عرضی کی نقل حاصل ہوئی ہے اور نہ ہی یہ واضح ہوا ہے کی عبدالقیوم کا نظریہ (آئیڈیولاجی) بدل چکا ہے۔
جس کے جواب میں بینچ نے مہتا سے پوچھا کہ وہ یہ واضح کریں کہ عبدالقیوم کو دہلی کے تہاڑ جیل میں کس بنیاد پر پی آیس اے کی مدت مکمل ہونے کے بعد بھی رکھا جائے گا۔
عدالت نے مہتا کو اپنا موقف واضح کرنے کے لیے دس دن کی مہلت دی۔
وہیں عبدالقیوم کے وکیل دشینت داوے نے دعویٰ کیا کہ ان کے مؤکل کی حراست کی مدت تقریباً ایک برس کی تھی جو اب کچھ دنوں میں مکمل ہونے جا رہی ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ عبدالقیوم اس وقت تک 73 سال کے ہیں اور عالمی وبا کے پھیلاؤ کے خدشات کے پیش نظر انہیں دہلی کے تہاڑ جیل میں نہیں رکھا جانا چاہیے۔
واضح رہے کہ اس سے قبل گزشتہ مہینے کی 26 تاریخ کو عدالت عظمیٰ نے جموں و کشمیر انتظامیہ سے عبدالقیوم پر عائد پی ایس اے پر جواب طلب کیا تھا۔
عبدالقیوم نے اپنی عرضی میں عدالت سے گزارش کی تھی کی انہیں سری نگر جیل منتقل کیا جائے کیونکہ ان کی صحت ناسازگار ہے۔