لداخ کے چشول علاقے کے کونسلر کونچوک اسٹینزن نے اس خبر کی تصدیق کی ہے کہ چین کی جانب سے ہاٹ اسپرنگ کے علاقے میں تین موبائل ٹاور لگائے گئے ہیں۔ اسی حوالے سے ای ٹی وی بھارت کے نمائندے ذوالقرنین زُلفی کے ساتھ چشول علاقے کے کونسلر کونچوک اسٹینزن نے خصوصی گفتگو کی جس میں انہوں نے اس حوالے سے اپنے خدشات، مشکلات اور مرکز کی جانب سے اٹھائے گئے اقدامات پر تفصیلی بات کی۔
"چین نے ہاٹ اسپرنگس کے علاقے پر موبائل ٹاور نصب کیے" سوال:چند روز قبل آپ نے اپنے سماجی رابطہ ویب سائٹ پر چین کی جانب سے کچھ موبائل ٹاؤر، لائن آف ایکچوئل کنٹرول کے نزدیک نصب کیے جانے کی تصاویر شیئر کی تھی. کیا ہے پورا معاملہ؟
جواب(کونچوک اسٹینزن): دیکھئے یہ ہاٹ اسپرنگس علاقے میں چین کی جانب سے نصب کے گئے ہیں۔ وہ ہمارا علاقہ نہیں ہے لیکن آپ دیکھئے چین لگاتار اپنے علاقے میں بنیادی ڈھانچہ بہتر کر رہا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ مرکزی حکومت چین کو اسی طریقے کار سے اپنا جواب دے۔ چین نے سرحد کے نزدیک یہ ٹاؤر نصب کیے ہیں اور آج نہیں بلکہ سنہ 2021 سے۔ ہمیں اس معاملے کو سنجیدگی سے لینا چاہیے اور اعتراض کرنا چاہیے جیسا وہ کرتے ہیں ہمارے ساتھ۔ وہ ان جگہوں پر بھی ٹاؤر نصب کر رہے ہیں جہاں رہائش ہے ہی نہیں تو ہم کیوں نہیں کر سکتے ؟ ہمارے اطراف تو آبادی ہونے کے باوجود موبائل نیٹ ورک کمزور ہے، 4G نہیں ہے کہیں کہیں تو 2G بھی نہیں ہے۔
سوال:ان موبائل ٹاورز سے بھارت کو کیا نقصان ہو سکتا ہے اور چین کو کیا فائدہ؟
جواب(کونچوک اسٹینزن): جب ہم اپنے علاقے میں کوئی ترقی والا کام کرتے ہیں تو ملک کو فائدہ تو ہوتا ہی ہے، ان کو بھی فائدہ ہو سکتا ہے۔ کیا پتہ کس چیز کے لیے استعمال کریں۔ ایک تو مواصلات نظام میں بہتری کے لیے، مشاہدہ کرنے کے لیے بھی استعمال کیا جا رہا ہو۔ یہ دونوں کام کے لئے استعمال کر سکتا ہے اور چین ایسا ہمیشہ کرتا آیا ہے۔ چین پہلے سرحد پر دیہات بساتا ہے، پھر ان کی فوج اس کو اپنے قبضے میں لے لیتے ہے۔ ہم کو اِن باتوں پر غور کر کے سنجیدگی سے اقدامات اٹھانے چاہیے۔ سرکار بہت کچھ کر رہی ہے لیکن ابھی بہت کچھ اور کرنے کی ضرورت ہے۔
سوال: ایک طرف چین کے ساتھ مذاکرات جاری ہیں اور دوسری طرف اس طرز کی پیش رفت دیکھی جا رہی ہے. آپ کو کیا لگتا ہے کہ مرکز کو اب کیا لائحہ عمل اختیار کرنا چاہیے؟
جواب(کونچوک اسٹینزن): چین اپنے علاقے میں رسائی آسان اور بہتر کر رہا ہے۔ اسی لیے چین نے پینگانگ جھیل پر پُل تعمیر کیا ہے۔ اگر پینگانگ جھیل کو گھوم کر آتے ہیں تو تقربیاً 150 کلومیٹر کا فاصلہ پڑتا ہے لیکن پل بننے سے راستہ اور نقل و حرکت آسان ہوگئی ہے۔ ہمارے یہاں بھی کافی پروجیکٹس کو منظوری مل گئی ہے، سرنگوں پر کام چل رہا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ ہم ان کے برابر ترقی کریں، اگر وہ تین ٹاؤر کھڑا کرتے ہے تو ہم چار کیوں نہ کریں؟
سوال: چراگاہوں میں مویشی چرانے کے مسئلہ کہاں پہنچا؟ کوئی حل نکلا؟
جواب(کونچوک اسٹینزن): اس مسئلے کو حکام کے سامنے میں بار بار اٹھاتا ہوں۔ اس بار موسم سرما کے دوران فوج اور انتظامیہ کی جانب سے کافی تعاون ملا۔ میری بھی یہ گزارش ہے سب سے کہ جہاں تک ہمارا علاقہ ہے وہاں تک چرواہوں کو جانے کی اجازت دیں۔ اس سے ہم اس جگہ کی دیکھ بھال کر سکتے ہیں اور ان چرواہوں سے بھی کافی جانکاری ملتی ہے۔ جب چین کے ساتھ بات ہوتی ہے تو شہریوں کی رسائی کی بات ایک اہم نقطہ ہوتا ہے۔ چین بھی پہلے اپنے چرواہوں کو سرحد کی جانب چھوڑ دیتا ہے پھر تنازع کھڑا کرتا ہے، ایسا نہیں ہونا چاہیے اس لیے ہمارے چرواہوں کو رسائی دینے کی ضرورت ہے۔
سوال:فوج، مقامی اور مرکزی انتظامہ سے کیا مطالبہ ہے آپ کا؟
جواب(کونچوک اسٹینزن): کوشش یہی رہے کہ سرحدی علاقوں میں بنیادی ڈھانچے میں بہتری لائی جائے۔ یہاں کی صورتحال سے ہر کوئی واقف نہیں ہے کیونکہ جس اونچائی پر ہم رہتے ہیں وہاں زراعت ہوتی ہے لیکن پورے بھارت کو نہیں پتہ ہے۔ اگر چرواہوں کو سہولیات نہیں دی گئی تو نقل مکانی ہو سکتی ہے جو ہمارے ملک کی سکیورٹی کے لیے اہم ہوگا۔