سرینگر (جموں و کشمیر) :’’جب بھی انتخاب منعقد ہوکر عوامی حکومت معرض وجود میں آئے گی، وہ دفعہ 370بحال کرنے کی مکلف ہوگی۔ اگر انہوں نے ایسا نہ کیا تو انہیں عوام کی عدالت میں اس کا جواب دینا ہوگا۔‘‘ ان باتوں کا اظہار سابق رکن پارلیمان اور انڈین نیشنل کانگریس کے سینئر لیڈر سیف الدین سوز نے ای ٹی وی بھارت کے ساتھ ایک خصوصی گفتگو کے دوران کیا۔
سیف الدین سوز نے ای ٹی وی بھارت کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا: ’’موجودہ دور کی سیاست میں اقدار کی کمی ہے۔ پہلے سیاستدان عوام کے ساتھ گھل مل جاتے تھے اور اُن کے مسائل ہل کرنے کے لیے پیش پیش رہتے تھے، تاہم آج کل ایسے چند ہی سیاستدان ہیں جو عوام کی بہبودی کے بارے میں سوچتے ہیں۔ سیاست میں مادیت پرستی کا عنصر شامل ہو گیا ہے، جس سے سیاسی اقدات میں حد درجہ کمی واقع ہوئی ہے۔‘‘
سنہ 2019 کے اگست مہینے کی پانچ تاریخ کو جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت منسوخی کیے جانے کے حوالے سے بات کرتے ہوئے سوز کا کہنا تھا کہ ’’کشمیر کے ماحول میں کھتاس پیدا ہو گئی ہے۔ ہمارے لیڈران نے بھارت کے ساتھ الحاق چند شرطوں پر کیا تھا۔ لیکن مرکز نے جموں و کشمیر کے لوگوں کے ساتھ بڑی نا انصافی کی ہے، کرتے آ رہے ہیں، اور کر رہے ہیں۔‘‘ سوز نے دعویٰ کیا کہ ’’جواہر لعل نہرو (کے زمانے) سے لیکر اب تک (یہاں کے) لوگ (مرکز سے) ناراض ہیں۔ اس وقت کے حکمران بھی ہر روز کچھ ایسا کرتے ہیں جس سے جموں و کشمیر کے لوگوں کے دل آزردہ ہو جاتے ہیں۔‘‘
سوز کا مزید کہنا تھا کہ ’’وزیر اعظم اور وزیر داخلہ خوشی مناتے ہیں کہ اُنہوں نے دفعہ 370 کو منسوخ کر دیا، یہ لوگ اپنی اس خوشی کو جموں و کشمیر کے لوگوں پر تھوپنا چاہتے ہیں، جو غلط ہے۔ ہمارے احساسات اور ہماری خواہشات اپنے ہیں اور آپ اُن خواہشات کو بدل نہیں سکتے۔ مرکزی سرکار غلط راستے پر ہے۔ بی جے پی کے لوگ کہتے رہتے ہیں کہ ’دفعہ 370 خراب تھا‘ لیکن جموں و کشمیر کی عوام اُن کا ساتھ نہیں دیتی ہے۔ دفعہ 370 ہماری داخلی خود مختاری کا عنوان تھا۔ اور اس کے لیے جد و جہد جاری ہے اور آئندہ بھی جاری رہے گی۔‘‘ سیف الدین سوز نے دفعہ 370کو بحال کرنے کے حوالہ سے جاری جد و جہد کے حوالہ سے کہا: ’’ یہ نسل بھی لڑتی رہی ہے اور آنے والی نسل بھی جدو جہد جاری رکھے گی۔‘‘
جموں و کشمیر میں اسمبلی انتخابات نہ کرائے جانے کی وجہ پر بات کرتے ہوئے سوز نے کہا کہ مرکزی سرکار انتخابات سے اپنا دامن بچانے کی کوشش میں ہے۔ سیف الدین سوز کے مطابق ’’مرکزی سرکار کو ڈر ہے کہ انہیں یہاں کیا میلے گا؟ کشمیر میں ایک سیٹ نہیں مل سکتی ہے بی جے پی کو، چاہئے وہ کروڑوں روپے ہی خرچ کر لے۔ جموں میں کیا ملے گا؟ یہاں بڑی پارٹی کانگریس ہے، نیشنل کانفرنس ہے اور دیگر مقامی جماعتیں ہیں۔ انتخابات میں وہ (غیر بی جے پی پارٹیز) اپنا حصہ لیں گی لیکن بی جے پی کو کچھ نہیں ملے گا۔‘‘