محکمہ صحت میں تمباکو نوشی کنٹرول پروگرام کے نوڈل آفیسر ڈاکٹر میر مشتاق سے خصوصی گفتگو سرینگر: سال 2022 میں کیے گئے ایک سروے کے مطابق جموں وکشمیر سگریٹ نوشی کے معاملے میں آبادی کی درجہ بندی کے اعتبار سے ملک بھر میں چھٹے مقام پر ہے اور یہاں سگریٹ کی خریدوفروخت پر سالانہ 850 کروڑ روپے صرف کیے جاتے ہیں، جس کی وجہ سے سگریٹ مصنوعات کی خریدوفروخت کے معاملے میں یہ سرِفہرست ہے۔ نوجوانوں میں سگریٹ نوشی کے بڑھتے ہوئے رجحان کو دیکھتے ہوئے حال ہی میں اس کے خلاف ایک بڑی آگاہی مہم چلائی گئی تاکہ نوجوان نسل کو تمباکو نوشی سے دور رکھا جاسکے۔ یہ مہم کتنی کامیاب اور موثر ثابت ہوئی اور آئندہ اس مہم کو کس طرح جاری رکھا جائے گا، اسی ضمن میں ای ٹی وی بھارت کے نمائندے پرویز الدین نے محکمہ صحت میں تمباکو نوشی کنٹرول پروگرام کے نوڈل آفیسر ڈاکٹر میر مشتاق سے خصوصی گفتگو کی۔
ڈاکٹر میر مشتاق نے کہا کہ سیگریٹ یا تمباکو نوشی کے دور رکھنے کے لیے قومی سطح پر یہ آگاہی مہم دو ماہ تک جاری رہی۔ البتہ اس خاص مہم کے دوران نوجوانوں پر توجہ مرکوز کی گئی تاکہ انہیں اس لَت سے دور رکھا جائے۔ اس دوران کشمیر صوبے میں یہ بیدرای مہم اسکول، کالج، یونیورسٹی اور دیگر تعلیمی اداروں تک ہی محدود نہیں رکھی گئی بلکہ بلاک، پنچایتی اور ضلع سطح پر بھی تمباکو نوشی مخالف مہم کو زور شور سے چلایا گیا جو کہ کافی حد کامیاب بھی رہی۔
ڈاکٹر میر مشاق نے کہا کہ تمباکو نوشی مخالف مہم میں تقریباََ 4 سے 5 طلباء اور اساتذہ نے شرکت کی۔ بچے ہی قوم کا مستقبل ہوتے ہیں۔ ایسے میں نہ صرف طلباء نے تمباکو نوشی مخالف اس مہم کو کامیاب بنانے میں ایک اہم رول ادا کیا بلکہ اساتذہ نے بھی اس میں اپنا بھر پور تعاون پیش کیا۔ جس کے مستقبل میں مثبت نتائج سامنے آنے کی امید ہے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ تمباکو نوشی کو قابو کرنے کے لیے قومی سطح کا یہ آگاہی پروگرام سال بھر جاری رہتا ہے البتہ اس مرتبہ خاص توجہ نوجوانوں پر دیا گیا کیونکہ جب قوم کا مستقبل توانا اور تندرست ہوگا تو ملک و قوم کی تعمیر بھی بہتر ہوگی۔
انہوں نے کہا کشمیر میں نوجوانوں میں سگریٹ نوشی کے ساتھ ساتھ منشیات کی لت بھی بڑھ رہی ہے اور ماہرین کے مطابق یہ لت ایک عام سگریٹ کش سے شروع ہوکر ہیرون تک پہنچ جاتی ہے۔ ایسے میں ضروری ہے کہ اگر ابتدائی طور نوجوانوں کو سگریٹ نوشی سے دور رکھا جائے تو منشیات کی وبا پر بھی کافی حد تک قابو کیا جاسکتا ہے۔ تمباکو نوشی کنٹرول پروگرام پر بات کرتے ہوئے ڈاکٹر میر مشتاق نے کہا کہ اس مشن کے تحت آگاہی پروگرام آگے بھی جاری رکھے جائیں گے۔ تاہم سگریٹ نوشی یا تمباکو نوشی کے خلاف جو وضع کردہ قوانین ہیں ان قوانین کو صحیح معنوں میں نافذ العمل کرنے کی ضرورت ہے۔ تعلیمی اداروں کے گرد و نواح میں دکانوں پر سگریٹ کی فروخت پر عائد پابندی کو موثر اندز میں نافذ کرنے کی ضرورت ہے، وہیں اجتماع اور انفرادی سطح پر بھی نوجوانوں کو مضر صحت تمباکو اور سگریٹ نوشی سے دور رکھنے کے لیے بھی کام کرنے کی بے حد ضرورت ہے۔
یہ بھی پڑھیں:
واضح رہے کہ مرکزی وزارت صحت و خاندانی بہبود کی نگرانی میں کیے گئے آخری نیشنل فیملی ہیلتھ سروے میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ جموں وکشمیر کے دیہی اور شہری علاقوں میں مرد آبادی کا 38.3 فیصد آبادی تمباکو کی مصنوعات کا استعمال کرتی ہے۔ سروے میں کہا گیا ہے کہ کپواڑہ ضلع کی نصف سے زائد آبادی سگریٹ نوشی کرتی ہے۔ اس سرحدی ضلع میں تقریبا 56.6 فیصد لوگ کسی بھی شکل میں تمباکو نوشی کی مختلف مصنوعات استعمال کرتے ہیں۔ اس کے بعد سرحدی ضلع شوپیاں کا نمبر آتا ہے جہاں 52 فیصد آبادی سگریٹ نوشی کرتی ہے یا تمباکو نوشی کے مختلف مصنوعات کا استمعال کرتی ہے۔ ان میں سے 5 فیصد خواتین بھی شامل ہیں۔
اسی طرح ضلع اننت ناگ تمباکو نوشی میں تیسرے نمبر پر ہے۔ جہاں پر 49.9 فیصد آبادی سگریٹ نوشی کی جاتی ہے۔ وہیں بڈگام ضلع کی 48.8 فیصد آبادی سگریٹ یا تمباکو نوشی کرتی ہے۔ جموں وکشمیر کے 20 اضلاع میں سب سے کم تمباکو نوشی کرنے والا ضلع جموں ہے جہاں صرف 26.5 فیصد آبادی سگریٹ نوشی کرتی ہے۔ اس کے بعد کھٹوعہ ضلع کا نمبر آتا ہے۔ ادھر خواتین کی جانب سے تمباکو یا سگریٹ نوشی کے معاملے میں بانڈی پورہ ضلع سرفہرست بتایا جاتا ہے۔ جہاں 9.1 فیصد خواتین سگریٹ نوشی کی عادی ہیں۔ اس کے بعد کپوارہ ضلع ہے جہاں 6.8 فیصد خواتین تمباکو نوشی کرتی ہے۔ اس کے برعکس سال 2022 کے سروے کے مطابق جموں وکشمیر کی گرمائی دارالحکومت سرینگر اور سرمائی دارالحکومت جموں میں سگریٹ نوشی کی عادی خواتین کی شرح بالترتیب 1.9فیصد اور 0.8 فیصد تھی۔