گزشتہ دو برس کے کورونا دور میں وادی کشمیر کے نوجوانوں میں منشیات کا استعمال بڑھا ہی نہی ہے بلکہ جانکاروں کی مانیں تو ہیروئن کا کاروبار ایک صنعت کی شکل اختیار کرنے کو تیار ہے۔ اور آئے روز یہ سننے کو مل رہا ہے کہ فلاں جگہ سے فلاں منشیات فروش گرفتار کیا گیا۔
منشیات کے عادی افراد کی تعداد میں ہو رہے اضافے کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ حالت بگڑنے پر یا گھر والوں کی جانب سے نشے کی لت چھڑانے کی کوشش میں ہسپتال لائے جانے والے نشہ بازوں کی تعداد میں بھی زبردست اضافہ ہوتے دیکھا جا رہا ہے۔
سرینگر کے ایک ہسپتال میں نشے کے عادی لوگوں کے علاج کے لیے مختص شعبے کے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ برس کورونا کی وبائی بیماری پھوٹ پڑنے کے بعد سے 3538 منشیات کے عادی افراد کے داخلے ہو چکے ہیں اور ان میں سے 40 فیصد ایسے افراد ہیں جو کہ کورونا لاک ڈاؤن کے عرصے کے دوران پہلی مرتبہ منشیات کی لت میں مبتلا ہو گئے ہیں۔
منشیات کا نشہ ایک ایسا دیمک ہے جو سکون حاصل کرنے کے دھوکے سے شروع تو کیا جاتا ہے لیکن یہ انسان کو تباہی کی دہلیز تک لا کھڑا کر دیتا ہے۔ نشہ کرنا صرف سماج میں عیش پرستوں میں عام نہیں ہے بلکہ ہر طبقے کے نوجوان اس میں مبتلا ہو رہے ہیں۔ یہاں تک معصوم بچے بھی نشے کو فیشن کے طور پر استعمال کرنے لگے ہیں۔
جی ایم سی سرینگر کے ڈرگ ڈی ایڈیکشن سنٹر کے انچارج ڈاکٹر یاسر راتھر کہتے ہیں کہ پہلے پہل سنٹر میں 10 سے 15 منشیات کے مریض علاج کی خاطر آتے تھے لیکن گزشتہ تین برس کے دوران اس میں کہیں زیادہ اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے اور اب روزانہ کی بنیاد پر او پی ڈی میں اوسطا 50 سے 70 منشیات میں مبتلا مریضوں کا تشخص عمل میں لایا جاتا ہے جو کہ نہ صرف قابل تشویش ہے بلکہ قابل فکر بھی۔