سری نگر: پانچ اگست 2019 کو جموں و کشمیر کی تاریخ کا دوسرا سیاہ دن قرار دیتے ہوئے نیشنل کانفرنس کے سرپرست اعلیٰ ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے کہا ہے کہ اِس روز کئے گئے غیر آئینی اور غیر جمہوری اقدامات 9 اگست 1953 کے اُن مذموم منصبوں کی ہی ایک کڑی تھی جن کا مقصد خصوصی پوزیشن کی صورت میں جموں وکشمیر کے عوام کو حاصل حقوق سے محروم کرنا تھا اور یہ تمام فیصلے آج غلط ثابت ہورہے ہیں جس کا ثبوت یہاں کی موجودہ بحرانی صورتحال ہے۔ان باتوں کا اظہار موصوف نے جمعے کے روز پارٹی ہیڈکوارٹر نوائے صبح میں پارٹی لیڈران اور عہدیداران سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ Farooq Abdullah on Article 370
ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے کہا کہ 5 اگست 2019 کے فیصلے جموں وکشمیر کے تینوں خطوں کے ہر طبقہ اور ہر مذہب سے تعلق رکھنے والے عوام نے مسترد کئے ہیں اور نیشنل کانفرنس یہاں کے عوام کے حقوق کی بحالی کے لئے اپنی آئینی، جمہوری اور سیاسی جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہے۔ انہوں نے کہاکہ پانچ اگست2019کو زبردستی چھینے گئے حقوق کی بحالی نیشنل کانفرنس کا ایجنڈا ہے لیکن ہماری منزل 1952کی پوزیشن کا حصول ہے اور ہماری جماعت اپنے اس بنیادی اصول سے کبھی بھی دستبردار نہیں ہوئی ہے۔
اُن کے مطابق 1952کی پوزیشن ہمیں بھارت کے آئین سے حاصل ہوئی ہے اور پارلیمنٹ نے اس پر مہر ثبت کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت اور پاکستان میں کشمیر کے نام پر حکومتیں بنتی ہیں لیکن کشمیریوں کیساتھ فٹبال کی طرح کھیلا جاتا ہے۔ انہوں نے دونوں ملک سے کہا کہ کشمیریوں کیساتھ ناانصافی کو ترک کیا جائے۔ ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے کہا کہ نیشنل کانفرنس پہلی بار ناانصافی کیخلاف نہیں لڑ رہی ہے، ہماری جماعت نے ایسے سخت ترین ادوار اور چیلنجوں کا سامناکیا ہے ، جن کی مثال کہیں ملتی۔