نیشنل کانفرنس نے کہا ہے کہ مدھیہ پردیش میں تمام سرکاری ملازمتیں مقامی لوگوں کے لئے محفوظ رکھنے کے اقدام سے بی جے پی کی دوہری پالیسی اور جموں و کشمیر کے تئیں روا رکھی گئی عدم مساوات کی پالیسی عیاں ہوگئی ہے۔
پارٹی کے ترجمان عمران نبی ڈار نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ مدھیہ پردیش کے وزیر اعلیٰ کی طرف سے تمام سرکاری ملازمتیں مقامی لوگوں کے لئے محفوظ رکھنے کا اعلان 'انضمام کا مسئلہ' کیوں نہیں ہے؟
انہوں نے کہا کہ ایک طرف بی جے پی اور مرکزی حکومت انضمام کے معاملے کا ڈھنڈھورا پیٹتی ہیں لیکن جب اپنی ہی پارٹی کا وزیر اعلیٰ مدھیہ پردیش میں یہ کہتے ہوئے سرکاری ملامتوں کو مقامی نوجوانوں کے لئے مخصوص رکھنے کا اعلان کرتا ہے کہ مدھیہ پردیش کے وسائل کا حق صرف اور صرف مدھیہ پردیش کے لوگوں کا ہے، اس وقت بھاجپا اور مرکزی حکومت اپنے کان بند اور آنکھوں پر پٹی باندھ لیتی ہے۔
ترجمان نے کہا کہ یہ معاملہ مرکزی حکومت کے لئے پریشان کُن کیوں نہیں؟ یا پھر بھاجپا نے مدھیہ پردیش کو اتنی اچھی طرح سے ضم نہیں کیا ہے کہ یہاں کی ملازمتیں ملک کی دیگر ریاستوں کے لوگوں کو فراہم نہیں کی جاسکتیں، جیسے جموں و کشمیر کے ساتھ کیا گیا؟
انہوں نے کہا کہ بھاجپا کے اس قسم کی دوہری پالیسی پر مبنی اقدامات جموں وکشمیر اور لداخ کے لوگوں کے خدشات، شک و شبہات کو صحیح ثابت کرتے ہیں۔
عمران نبی ڈار نے کہا کہ جموں وکشمیر نیشنل کانفرنس نے اس لئے بھی ڈومیسائل قانون کو یکسر مسترد کیا ہے کیونکہ اس میں مقامی نوجوانوں کے لئے ملازمتوں اور تعلیم حاصل کرنے کے حقوق کا تحفظ نہیں دیا گیا ہے۔
انہوں نے سوال کیا کہ مرکزی حکومت نے مختلف ریاستوں کے بارے میں اپنی پالیسیوں میں الگ الگ پیمانے کیوں رکھے ہیں؟ اور انضمام و قوم پرستی کے لئے جموں و کشمیر کے عوام کے تحفظات اور خدشات و قربان کیوں کیا گیا؟ مدھیہ پریش کے وزیر اعلیٰ کے اعلان سے جائز اور اہم سوالات اُبھر کر سامنے آئے ہیں۔ جموں وکشمیر اور لداخ کے نوجوانوں کو مقامی وسائل کے حقوق سے محروم کیوں رکھا جارہا ہے؟ جموں وکشمیر کی نقشہ سازی مختلف ہے، یہاں معاشی وسائل بہت ہی محدود ہیں اور نجی سیکٹر نہ ہونے کے برابر ہے جس کی وجہ سے خطے میں سرکاری ملازمتیں ہی روزگار کا ایک اہم اور معتبر ذریعہ ہیں اور حکومت ہند نے مقامی لوگوں سے یہ ذریعہ بھی چھین لیا۔
اگر مدھیہ پردیش جیسی نسبتاً امیر ریاست سرکاری ملازمتوں کو مقامی آبادی کے لئے محفوظ رکھنا محسوس کرسکتی ہے تو اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جانا چاہئے کہ معاشی حالات، غربت، دور افتادگی، ٹوپوگرافی اور دیگر وجوہات کی بنا پر جموں وکشمیر اور لداخ کے عوام اس کے لئے سب سے زیادہ مستحق ہے۔
بھارتی حکومت کو اپنا موقف واضح کرنا چاہئے، لوگ جاننا چاہتے ہیں کہ جموں وکشمیر کے ساتھ سوتیلی ماں کا سلوک کیوں روا رکھا گیا ہے؟ جموں وکشمیر کے عوام کے چھوٹے سے چھوٹے جائز خدشات کو شدید قوم پرستی کے دائرے میں کیوں دکھا جاتا ہے اور جموں وکشمیر کے عوام کے خدشات کو ملک کے سالمیت کے لئے کیوں خطرہ بتایا جاتا ہے؟ جبکہ دیگر ریاستوں کے ایسے ہی خدشات کو مختلف نظریئے سے دیکھا جاتا ہے۔