جموں وکشمیر کے دارالحکومت سرینگر کے سرائے بل میں گزشتہ جمعرات کو 50 برس سے وادی میں صرافہ کاروباری ستیا پال نشچل کو نامعلوم بندوق برداروں نے ان کی ہی دکان میں ان کے بیٹے کے سامنے گولیاں چلا کر ہلاک کیا تھا۔
اگرچہ مقتول کے لواحقین یہ سوال پوچھ رہے ہیں کہ ان کے والد کو کس جرم اور کس نے قتل کیا، وہیں پولیس کے مطابق ان کو عسکریت پسندوں نے ہلاک کیا ہے۔ پولیس کا مزید کہنا ہے کہ انہوں نے معاملے کا مقدمہ درج کرکے اس کی تحقیقات کا آغاز کیا ہے۔
جمعرات کی شام کو ستیاپال نشچل اپنے دکان میں بیٹھا تھا جب ان کے بیٹے راکیش نشچل کے مطابق نامعلوم بندوق برداروں نے ان کے والد پر نزدیک سے اندھا دھند گولیاں چلائی اور ان کی ہسپتال پہنچنے سے قبل ہی موت ہوئی۔
ان کی ہلاکت کے بعد سوشل میڈیا پر 'دی رزسٹنس فرنٹ' نامی عسکری تنظیم نے بیان جاری کرتے ہوئے اس ہلاکت کی ذمہ داری قبول کی۔
اس دھمکی ساز بیان میں کہا گیا کہ ڈومیسائل قانون ناقابل قبول ہے اور اس نئے قانون سے فائدہ اٹھانے والے افراد کے خلاف کاروائی کی جائے گی۔
غور طلب ہے کہ دفعہ 370 کی منسوخی کے بعد تنطیم نو قانون 2020 کے مطابق جموں وکشمیر میں ملک کا کوئی بھی شہری نئی یونین ٹریٹری کا چند شرائط پورے کرکے ڈومیسائل بن سکتا ہے، جس کے بعد وہ یہاں اراضی یا دیگر جاییداد خرید سکتا ہے۔
اس سے قبل سابق ریاست جموں و کشمیر کے سٹیٹ سبجکٹ قانون کے مطابق صرف یہاں کے باشندوں کو زمین کے مالکانہ حقوق حاصل ہو سکتے تھے۔
ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے مقتول ستیا پال نشچل کے سوگوار فرزند راکیش نشچل نے بتایا کہ ان کے والد گزشتہ پچاس برس سے سرینگر میں صراف تاجر تھے اور کسی قسم کے تنازعے میں مبتلا نہیں تھے اور نہ ہی کھبی ان کو کسی فرد یا جماعت کے ساتھ کوئی رنجش تھی۔