ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کشمیر نے عدالت کے اس فیصلے کی سراہنا کی ہے جس میں عدالت نے سرکاری اسپتالوں میں تعینات ڈاکٹروں کی پرائیویٹ پریکٹس پر پابندی لگائی گئی ہے۔
واضح رہے کہ جموں و کشمیر عدالت نے گذشتہ روز ایک حکمانے میں کہا ہے کہ سرکاری اسپتالوں میں کام کرنے والے ڈاکٹروں کو نجی کلینکوں پر کام کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی ہے۔
اس ضمن میں ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کشمیر کے صدر ڈاکٹر نثار الحسن نے کہا ہے کہ پرائیویٹ پریٹکس غریب مریضوں پر بھاری جرمانہ کے مترادف ہے، انہوں نے کہا کہ یہ بات قابل حیرت ہے کہ سرکاری اسپتالوں میں ہمہ وقتی کام کرنے والے ڈاکٹروں کو نجی کلینکوں پر علاج کرنے کی اجازت دی جاتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس طرح کا اقدام شعبہ صحت کو خراب کرتا ہے اور یہ مریضوں کو دھوکہ دینے کے مترادف ہے۔ ڈاکٹر نثار الحسن نے کہا کہ پرائیویٹ پریکٹس نے ہمارے صحت شعبہ کو تباہ کردیا ہے اور ہیلتھ اینڈ میڈیکل ایجوکیشن میں کرپشن کا باعث ہے۔
ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کشمیر کے صدر نے کہا کہ سرکاری ہسپتالوں میں تعینات زیادہ تر وقت نجی کلینکوں پر گزارتے ہیں اور اسپتالوں میں کم ہی نظر آتے ہیں اور ان کا وقت اور ان کی توجہ پرائیویٹ پریکٹس کی طرف ہوتی ہے جس سے اسپتالوں میں علاج و معالجہ کا عمل بُری طرح سے متاثر ہوا ہے، انہوں نے اس بات کا بھی انکشاف کیا کہ ڈاکٹر اسپتالوں کی سہولیات کو ناجائز طریقے سے اپنے پرائیویٹ مریضوں کے لیے صرف کرتے ہیں جبکہ اسپتالوں میں دستیابی سہولیات کا حق غریب مریضوں کا ہے جن کے پاس پرائیویٹ میں علاج کرنے کے وسائل نہیں ہوتے۔
انہوں نے کہا کہ اگر ایک ڈاکٹر اپنے نجی کلینک پر صبح اور شام کے اوقات میں بڑی تعداد میں مریضوں کا علاج کرکے اپنی ذہتی توانائی کو ختم کرے گا تو وہ ہسپتالوں میں دیگر مریضوں کا علاج انصاف کے ساتھ کس طرح سے کرسکتا ہے۔
ڈاکٹر نثارالحسن نے کہا ہے کہ سرکاری اسپتالوں میں ڈاکٹر مریضوں کو زیر تربیت معالجین کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتے ہیں جو نہ صرف صحیح علاج سے بے خبر ہوتے ہیں بلکہ ان کا تجربہ بھی نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے اور وہ کسی پیچیدہ کیس کو سنبھالنے کے بھی اہل نہیں ہوتے جس کی وجہ سے مریضوں کو فائدہ پہنچنے سے زیادہ نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہوتا ہے اور مریض غلط علاج اور سینئر ڈاکٹروں کی عدم موجودگی کی وجہ سے موت کے آغوش میں چلے جاتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں اگرچہ سرکار نے ماضی میں بھی پرائیویٹ پریکٹس پر پابندی لگائی تھی تاہم مضبوط ’لابی‘ نے سرکاری حکمنامے کو بے عمل کردیا ۔ اس لئے عدالتی احکامات پر زمینی سطح پر عمل میں لانے کے لیے متعلقہ اداروں کو حرکت میں آنا چاہئے اور کسی بھی خلاف ورزی کی کوشش کو ناکام بنانا چاہئے تاکہ شعبہ صحت کی جو حالت ہے وہ بہتر ہوسکے۔