اردو

urdu

ETV Bharat / state

DAK Seeks Ban on Tobacco Products: کشمیر میں تمباکو مصنوعات پر مکمل پابندی کا مطالبہ - کشمیر سگریٹ نوشی

ایک سروے کے مطابق جموں و کشمیر میں تمباکو نوشی کی شرح 42 فیصد پہنچ چکی ہے جو محض پانچ برس قبل صرف 21 فیصد تھی۔

کشمیر میں تمباکو مصنوعات پر مکمل پابندی کا مطالبہ
کشمیر میں تمباکو مصنوعات پر مکمل پابندی کا مطالبہ

By

Published : Jun 1, 2023, 12:19 PM IST

سرینگر (جموں و کشمیر):ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کشمیر (DAK) نے بیان جاری کرتے ہوئے کشمیر میں تمباکو کی تمام مصنوعات پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کیا۔ ڈاکٹرس ایسوسی ایشن کے صدر ڈاکٹر نثار الحسن نے کہا کہ تمباکو کی مصنوعات پر پابندی سے کینسر کو روکا جا سکتا ہے۔ وادی کشمیر میں تمباکو نوشی وبائی حد تک پہنچ چکی ہے۔

ڈاکٹرس ایسوسی ایشن نے مرکزی وزرات صحت کے اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہوئے اپنے بیان میں کہا کہ جموں و کشمیر میں گذشتہ چار برسوں کے دوران کینسر کے 51577 کیس رپورٹ ہوئے ہیں جن میں پھیپڑوں کا کینسر سب سے زیادہ ہے اور پھیپھڑوں کے کینسر کے لیے سگریٹ اور تمباکو نوشی سب سے بڑی وجہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ تمباکو نوشی نہ صرف کینسر کا باعث بنتا ہے بلکہ اس سے دل کا دورہ پڑنے اور فالج سے مرنے کا خطرہ بھی بڑھ جاتا ہے۔ دل کا دورہ اور فالج وادی میں موت اور معذوری کی دو اہم وجوہات ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق جموں و کشمیر شمالی ہندوستان میں تمباکو نوشی کی دارالحکومت کے طور ابھرا رہا ہے، کیونکہ جموں وکشمیر میں سگریٹ کی کھپت ملک بھر کی مختلف ریاستوں کے مقابلے میں تقریبا دوگنی ہے۔

واضح رہے کہ جموں وکشمیر میں گزشتہ 4 برسوں کے دوران سگریٹ نوشی میں کوئی کمی نہیں آئی ہے۔ اس کا ثبوت نیشنل فیملی ہیلتھ سروے میں بھی ہوا ہے۔ نیشنل فیملی ہیلتھ سروے میں بتایا گیا ہے کہ جموں وکشمیر میں 41.9 فیصد لوگ تمباکو سے بنی دیگر ایشاء کا استعمال کر رہے ہیں۔ سروے کے مطابق سرحدی ضلع کپوارہ میں سب سے زیادہ 56.6 فیصد جبکہ جموں ضلع میں سب سے کم 26 فیصد لوگ تمباکو سے بنی ایشاء کا استعمال کر رہے ہیں۔

مزید پڑھیں:World No Tobacco Day عالمی یوم انسداد تمباکو کے موقعہ پر سگریٹ نوشی کے بڑھتے رجحان پر افسوس کا اظہار کیا گیا

یہ بات قابل ذکر ہے کہ 2018 کی گیٹس رپورٹ کے مطابق جموں وکشمیر میں تمباکو نوشی کرنے والے افراد کی شرح 21 فیصد تھی تاہم تازہ قومی فیملی ہیلتھ سروے کے مطابق یہ شرح تقریبا 42 فیصد تک پہنچ چکی ہے، جو انتہائی تشویشناک ہے۔

ABOUT THE AUTHOR

...view details