واضح رہے کہ گزشتہ برس 9 نومبر کو مرکزی حکومت نے اس حوالے سے سنجے مترا کی صدارت میں تین رکنی کمیٹی تشکیل دی تھی۔ اس کمیٹی کی رپورٹ پر جموں و کشمیر کے لیفٹیننٹ گورنر اور لداخ کے لیفٹیننٹ گورنر سے رائے اور مشورہ لینے کے بعد دونوں مرکزی خطوں کے درمیان اثاثوں کے بٹوارے کے حوالے سے حتمی فیصلہ کیا گیا ہے۔
جموں و کشمیر انتظامیہ کے کمشنر سیکٹری منوج کمار دوویدی کی جانب سے جاری کی گئی نوٹیفیکیشن کے مطابق 'مرکزی سرکار کی جانب سے تشکیل شدہ کمیٹی کی رپورٹ کے تمام پہلوؤں پر غور و فکر کرنے کے بعد دونوں مرکزی خطوں کے لیفٹیننٹ گورنر نے اثاثوں کے بٹوارے کی حمایت کی ہے۔'
اس میں مزید کہا گیا ہے کہ 'جموں و کشمیر تنظیم نو قانون 2019 کے سیکشن (3) 84 اور (2) 85 کے تحت لیفٹیننٹ گورنر نے اثاثوں کے بٹوارے کا اعلان کیا ہے۔ یہ بٹوارہ اکتوبر مہینے کی 31 تاریخ سے لاگو ہوگا۔"
32 ادارے جموں کشمیر کو ملے
بٹوارے کے بعد مرکز کے زیر انتظام جموں و کشمیر کو 32 ادارے دیے گئے ہیں۔ جن میں جموں و کشمیر سٹیٹ فاریسٹ کارپوریشن، علاقائی دھوتی بینک، جموں اینڈ کشمیر منرلز لمیٹڈ، جموں و کشمیر پروجیکٹ کنسٹرکشن کارپوریشن، جموں اینڈ کشمیر سٹیٹ انڈسٹریل ڈویلپمنٹ کارپوریشن، جموں و کشمیر ٹوریزم ڈویلپمنٹ کارپوریشن جیسے ادارے شامل ہیں۔ ان اداروں کے اثاثوں میں لداخ انتظامیہ کی کسی بھی قسم کا حصہ نہیں ہوگا۔ تاہم ان اداروں سے جڑے ملازمین، جو لداخ میں تعینات ہیں، کو یہ اختیار دیا جائے گا کہ وہ ادارے کے لیے وہیں سے کام کریں یا پھر لداخ میں قائم کیے جا رہے ایسے ہی اداروں میں کام کریں۔ اس کے علاوہ ان اداروں کے لداخ میں اثاثوں کو جب ضرورت پڑے گی تو اسے تو لداخ انتظامیہ کو سپرد کیا جائے۔
نئے زمینی قوانین کے خلاف کشمیر میں ہڑتال
اس کے علاوہ مزید چھ اداروں کو سابقہ جموں و کشمیر حکومت کی جانب سے واگزار کی گئی رقومات کا 20 فیصد لداخ انتظامیہ کو عارضی طور پر دیا جائے گا۔ ان اداروں میں جموں اینڈ کشمیر سٹیٹ فنانس کارپوریشن، جموں و کشمیر گرامین بینک لمیٹڈ، جموں اینڈ کشمیر سمال سکل انڈسٹریل ڈویلپمنٹ کارپوریشن لمیٹڈ، جموں اینڈ کشمیر شیڈول کاسٹ، شیڈول ٹرائبس، بیک ورڈ کلاسز ڈویلپمنٹ کارپوریشن لمیٹڈ، جموں و کشمیر ٹریڈ پرموشن آرگنائزیشن، اور جموں و کشمیر سٹیٹ کوآپریٹیو بینک لمیٹڈ شامل ہیں۔
جموں اینڈ کشمیر سٹیٹ روڈ ٹرانسپورٹ کارپوریشن کا کیا ہوگا؟
جموں و کشمیر اسٹیٹ روڈ کارپوریشن جموں و کشمیر کو ہی دیا گیا ہے تاہم ادارے کے اثاثے جو لداخ میں قائم ہیں وہ لداخ انتظامیہ کو ہی سونپ دیے گئے۔ پہلے سے چل رہی 19 برسوں کے علاوہ مزید 20 بسیں، دس ٹرک بھی لداخ کے حصے میں آئی ہیں۔