سرینگر (جموں و کشمیر):رواں برس ہائی کورٹ آف جموں و کشمیر اینڈ لداخ نے پبلک سیفٹی ایکٹ (پی ایس اے) کے 150 سے زیادہ معاملات کو حل کیا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان مقدمات میں ججوں کی اکثریت نے مشاہدہ کیا کہ ’’نظر بند کرنے والی اتھارٹی نے اسیر (قیدی) کی نظر بندی کے لئے وجوہات بیان کرتے وقت اپنے ہوش و حواس کا استعمال نہیں کیا۔‘‘
مندرجہ ذیل چند قابل ذکر معاملات ہیں جن میں جج صاحبان نے محسوس کیا کہ حراستی اتھارٹی کی عدم توجہی کی وجہ سے قیدی کی آزادی پر قدغن عائد کیا گیا ہے۔
سجاد احمد ڈار عرف سجاد گل
مقدمہ کا عنوان: سجاد احمد ڈار (بھائی کے ذریعے) بمقابلہ یونین ٹیریٹری آف جموں و کشمیر (بذریعہ پرنسپل سیکرٹری برائے ہوم ڈیپارٹمنٹ، سول سیکرٹریٹ، سرینگر/جموں)، ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ (بانڈی پورہ) اور سٹیشن ہاؤس آفیسر، پولیس اسٹیشن حاجن، ( بانڈی پورہ)
کیس نمبر: WP (Crl) نمبر 09/2022
جج (ججز): چیف جسٹس این کوٹیشور سنگھ اور جسٹس ایم اے چودھری
بنچ: سرینگر
فیصلے کا اعلان: 9 نومبر 2023
سجاد احمد ڈار پر پی ایس اے کے تحت مقدمہ کیوں درج کیا گیا؟
ڈار (نظر بند) کو 14 جنوری 2022 کو ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ، بانڈی پورہ نے آرڈر نمبر 34/DNB/PSA/22 کے ذریعے حراست میں لئے جانے کے احکامات صادر کیے۔ ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے دعویٰ کے مطابق، سجاد گل کے خلاف پی ایس اے کے تحت اس وجہ سے مقدمہ درج کیا گیا کیونکہ 11 جنوری 2022 کو سینئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس، بانڈی پورہ کی جانب سے مجسٹریٹ کے سامنے رکھے گئے ڈوزیئر سے وہ مطمئن ہو گئے تھے کہ ’’نظربند (سجاد گل) کو کسی بھی کارروائی سے روکنے کے لیے مناسب وجوہات ہیں اور ریاست کی سلامتی کے لیے اور ایکٹ کی دفعات کے تحت اسے حراست میں لینا ناگزیر تھا۔‘‘
نظر بندی کے حکم کو منظور کرتے ہوئے، حراستی اتھارٹی نے نظر بندی کی بنیادیں وضع کیں جس میں نظربند کی عمر 29 سال بتائی گئی ہے جو نہ صرف ایک پیشہ ور صحافی ہے بلکہ صحافت میں ماسٹرز ڈگری بھی حاصل کی ہے۔ نظر بندی کے احکامات میں ’’گل ایک پڑھا لکھا شخص ہے جس نے لوگوں کو حکومتی اداروں کے خلاف اکسانے کے لیے سوشل میڈیا پر اپنے بیانات کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جو فساد اور دشمنی کا باعث بنے۔ مزیدیکہ نظربند نے متنازعہ بیانات بھی دیے/ٹویٹ کیے اور وہ یونین ٹیریٹری کی فلاح و بہبود کے بارے میں رپورٹنگ انتہائی کم تھی جبکہ وہ دشمنی اور فسادات کو بڑھاوا دے رہے تھے۔
حراست کی بنیادوں سے مزید پتہ چلتا ہے کہ پولیس اسٹیشن، حاجن میں نظربند کے خلاف تین ایف آئی آر درج کی گئی ہیں۔
عدالت نے کیا کہا؟
ہائی کورٹ نے ڈار پر عائد پی ایس اے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے اپنے حکمنامہ میں مشاہدہ کیا کہ ’’نظر بندی کی بنیادیں مبہم ہیں اور نظربند کے خلاف عمومی الزامات ہیں جبکہ کسی خاص واقعہ کا تذکرہ یا ثبوت نہیں۔ مبہم بنیادوں پر مبنی نظر بندی کا حکم پائیدار اس وجہ سے نہیں ہے کہ نظر بندی (کے احکامات جاری) کرنے والی اتھارٹی نے حکم جاری کرنے سے قبل نظربند (سجاد گل) کی آزادی کو محدود کر کے نظربند کی روک تھام کے لئے جاری حکم کے لیے اپنے ذہن کا استعمال نہیں کیا۔ ایک شخص کی ذاتی آزادی قیمتی اور قابل قدر ہے، اور اس قابل احترام حق کی ضمانت آئین ہند کے آرٹیکل 21 کے تحت دی گئی ہے۔‘‘
فیصلہ: پی ایس اے منسوخ کر دیا گیا۔
مندرجہ بالا وجوہات اور مشاہدات کی بنا پر، عدالدت کی سنگل بینج نے گل پر عائد پی ایس اے کو منسوخ کرتے ہوئے کہا: ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ، بانڈی پورہ کی طرف سے منظور شدہ نظر بندی کے حکم نمبر 25/DMB/PSA کو منسوخ کر دیا گیا ہے۔ جواب دہندگان کو ہدایت کی جاتی ہے کہ اگر کسی اور معاملے / کیس میں (گل کی نظربندی کی) ضرورت نہ ہو تو نظربند، یعنی سجاد احمد ڈار کو فوری طور پر احتیاطی حراست سے رہا کر دیں۔‘‘
لیاقت علی
مقدمہ کا عنوان: لیاقت علی بمقابلہ یونین ٹیریٹری آف جموں و کشمیر اور دیگر
کیس نمبر: WP(Crl) نمبر 82/2022
جج (ججز): جسٹس سندھو شرما
بنچ: جموں
فیصلے کا اعلان: 5 اکتوبر 2023
اس پر پی ایس اے کے تحت مقدمہ کیوں درج کیا گیا؟
لیاقت علی کو 4 نومبر 2022 کو ضلع مجسٹریٹ، رام بن کے جاری کردہ آرڈر نمبر 32/PSA 2022 کے ذریعے حراست میں لیا گیا تھا۔ ضلع مجسٹریٹ، رام بن نے جموں و کشمیر پبلک سیفٹی ایکٹ 1978 کی دفعہ 8 کے تحت اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے لیاقت علی کو پبلک سیفٹی ایکٹ (کی دفعات) کے تحت احتیاطی حراست میں رکھنے، اور تاکہ اسے (ملک مخالف کارروائیوں سے) روکا جائے اور امن عامہ کو برقرار رکھنے کے لیے کسی بھی طرح کے متعصبانہ کام انجام دینے سے روکا جائے۔
عدالت نے کیا کہا؟
حراستی ریکارڈ کی جانچ پڑتال سے پتہ چلتا ہے کہ حراستی اتھارٹی کی جانب سے نظربندی کا حکم جاری کرتے وقت جس پر انحصار کیا گیا تھا وہ تمام مواد نظر بند (قیدی) کو فراہم نہیں کیا گیا تھا۔ رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ جواب دہندگان نے حراست میں رکھنے والوں کو آرڈر، متعلقہ مواد اور دستاویزات فراہم کیے ہیں۔ تاہم ایسا معلوم ہوا ہے کہ نظر بند کو (کاغذ کے) صرف پانچ پنے ہی فراہم کیے گئے ہیں، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حراستی حکم نامہ پاس کرتے وقت مدعا علیہ کے ذریعے نظربند (قیدی) کو ڈوزیئر اور دیگر متعلقہ مواد کی کاپی فراہم نہیں کی گئی ہے۔ نظربند کی حراست ایس ایس پی، رام بن کے پولیس ڈوزیئر پر مبنی ہے اور یہ ڈوزیئر نظر بند کو نہیں دیا گیا ہے۔ نظر بند کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ نظربندی کا حکم جاری کرتے وقت حراستی اتھارٹی کے پاس کیا ثبوت ہیں تاکہ وہ اپنی موثر نمائندگی کر سکے۔
فیصلہ: پی ایس اے منسوخ کر دیا گیا۔
مذکورہ بالا بحثوں کے پیش نظر ضلع مجسٹریٹ، رام بن کے ذریعے منظور شدہ نظر بندی آرڈر نمبر 32/PSA 2022 کو منسوخ کر دیا گیا ہے۔ ضلع مجسٹریٹ رام بن کو ہدایت کی گئی ہے کہ لیاقت علی کو فوری طور پر حراست سے رہا کرنے کا حکم دیا جائے بشرطیکہ وہ کسی اور معاملے میں مطلوب نہ ہو۔
سحران عباس شیخ
مقدمہ کا عنوان: سحران عباس شیخ بمقابلہ یونین ٹیریٹری آف جموں و کشمیر، ضلع مجسٹریٹ (جموں)، سینئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ریلوے)، جموں، اور سینئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس، جموں۔
کیس نمبر: WP(Crl) نمبر 92/2022
جج (ججز): جسٹس ایم اے چودھری
بنچ: جموں