اردو پورے برصغیر کے رابطے کی زبان ہے۔ یہ سمجھنے اور پڑھنے میں کافی آسان اور سہل ہے۔ جموں و کشمیر میں سرکاری زبانوں کے حوالے سے جو فہرست منظر عام پر لائی گئی اس میں اردو کے ساتھ مزید چار زبانوں کو شامل کیا گیا جس میں کشمیری، ڈوگری اور انگریزی کے علاوہ ہندی قابل ذکر ہے۔
جموں و کشمیر میں اردو کی بادشاہت ختم کرنے کے تناظر میں محبان اردو اور مختلف انجمنوں کا کہنا ہے کہ 'زبانوں کو سرکاری درجہ دیے جانے سے ان کی آبیاری نہیں کی جاسکتی ہے بلکہ ایک مربوط لائحہ عمل مرتب کر کے زبان و ادب کو فروغ دیا جاسکتا ہے۔'
ڈوگرہ دور حکومت سے ہی جموں و کشمیر میں اردو کو سرکاری زبان کا اعزاز حاصل ہوا۔ وہیں تقسیم ہند کے بعد بھی اردو نے اپنی حیثیت برقرار رکھی کیونکہ یہ ایک ایسی واحد زبان ہے جو یہاں کے ہر خطے میں بولی اور سمجھی جاتی ہے۔ اردو عوام کے درمیان اتحاد اور یگانگت کی علامت بھی رہی ہے۔ لیکن چند دہائیوں سے یہاں اس کے ساتھ سوتیلی ماں کا سلوک رواں رکھا گیا۔
مشہور افسانہ نگار وحشی سعید کہتے ہیں کہ 'ماضی میں واحد سرکاری زبان ہونے کے باوجود بھی حکومتی سطح پر اردو سے کسی نے وفا نہیں کی اور اب مزید چار زبانوں کو شامل کرنے سے مستقبل میں بھی اردو کے ساتھ انصاف ہونے کی کوئی اُمید نہیں کی جا سکتی ہے۔ انگریزی زبان کے غلبے کے باوجود بھی صدیوں سے جموں و کشمیر کے تینوں خطوں کی تہذیب و تمدن، ثقافت اور روایات کو سمجھنے اور ایک دوسرے تک پہچانے کے لئے اردو کا ایک اہم رول رہا ہے۔'