جموں و کشمیر پردیش کانگریس کمیٹی کے صدر غلام احمد میر نے کہا ہے کہ ہم جموں و کشمیر کے بارے میں پانچ اور چھ اگست کو لئے گئے فیصلوں کو غیر آئینی سمجھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان فیصلوں کے بعد بنائے جانے والے قوانین کو بھی ہم غیر آئینی ہی گردانتے ہیں۔
موصوف صدر نے کہا: 'جموں و کشمیر کے بارے میں جو فیصلے پانچ اور چھ اگست 2019 کو لئے گئے اور اب پچھلے گیارہ مہینوں سے نئے قوانین لائے جا رہے ہیں، جب ہم بنیادی فیصلوں کو ہی غیر آئینی اور غیر قانونی سمجھتے ہیں تو اس کے بعد لاگو کئے جانے والے قوانین کو کیسے جائز گردانیں گے'۔
انہوں نے کہا کہ یہاں لوگ پریشان ہیں غیر مقامی لاگوں کو اولین فرصت میں ڈومیسائل سرٹیفکیٹس دی جارہی ہیں۔
غلام احمد میر نے کہا کہ جموں وکشمیر کو دفعہ 370 دلی والوں سے خیرات میں نہیں ملا تھا۔ انہوں نے کہا: 'دفعہ 370 دلی والوں کی طرف سے کوئی خیرات نہیں تھا بلکہ الحاق کرنے والوں نے اس کو خطے کے حالات کے پیش نظر آئین میں رکھا تھا تاکہ جموں و کشمیر کے لوگ بھی ملک کے باقی حصوں کے لوگوں کے ساتھ کھڑا رہ سکیں'۔
انہوں نے کہا کہ اگر ان لوگوں (بی جے پی) کو دفعہ 370 کے ساتھ کوئی بیر ہے تو وہ دفعہ369 ہی بنائیں اور اس میں جموں و کشمیر کے لوگوں کے تحفظات کو محفوظ رکھیں۔
جموں و کشمیر کو ریاست کا درجہ واپس دیے جانے کے بارے میں پوچھے جانے پر موصوف صدر نے کہا: 'کانگریس جموں و کشمیر کو ریاست کا درجہ واپس دلانے پر لڑتی رہے گی۔ ہمارا ماننا ہے کہ بی جے پی نے جس راستے سے، کسی کو پچھے، بغیر اس کو لیا ہے اسی راستے سے واپس بھی دینا پڑے گا'۔