اردو

urdu

’طبی عملے کی حفاظت کیلئے علیحدہ قانون کی ضرورت نہیں‘

By

Published : May 14, 2020, 7:42 PM IST

ڈاکٹرس ایسوسی ایشن کشمیر کے صدر کے مطابق طبی عملے کی حفاظت کے لیے کسی نئے یا علیحدہ قانون کی ضرورت نہیں بلکہ پہلے ہی انکی حفاظت سے متعلق قوانین موجود ہیں۔

’طبی عملے کی حفاظت کیلئے علیحدہ قانون کی ضرورت نہیں‘
’طبی عملے کی حفاظت کیلئے علیحدہ قانون کی ضرورت نہیں‘

جموں و کشمیر میں ہسپتالوں میں ڈاکٹروں کے ساتھ تیمارداروں کی جانب سے زیادتی کئے جانے کے معاملے پر عدالت عالیہ میں دائر ایک عرضی کے سلسلے میں ڈاکٹرس ایسوسی ایشن کے صدر ڈاکٹر نثارالحسن نے کہا ہے کہ طبی عملہ اور ڈاکٹروں کی حفاظت کیلئے کوئی الگ قانون وضع کرنے کی ضرورت نہیں ہے کیوں کہ ایسے کئی قوانین پہلے ہی نافذ العمل ہیں جس میں ڈاکٹروں کے ساتھ زیادتی کرنے والے کے خلاف کارروائی کی جا سکتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر اس معاملے میں الگ قانون لایا جاتا ہے تو اس سے مریض ہسپتالوں میں آنے سے خوف محسوس کریں گے اور طبی عملہ اور ڈاکٹر اس قانون کو ہتھیار بناکر اپنے فرائض کی انجام دہی سے اور زیادہ غفلت برت سکتے ہیں۔

قابل ذکر ہے کہ طبی عملے کے ساتھ کی جانے والی زیادتیوں اور مار پیٹ کے سلسلے میں عدالت میں عرضی دہندگان نے کہا ہے کہ اس سلسلے میں ایک قانون لایا جائے تاکہ ڈاکٹروں اور طبی عملہ کی حفاظت کو یقینی بنانے کا علاوہ زیادتی کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی ہو۔

اس سلسلے میں عدالت نے جانکار حلقوں سے اپنی آراء طلب کرلی جس میں ڈاکٹرس ایسوسی ایشن سے بھی رائے طلب کرلی گئی تھی۔

ڈاکٹر نثارالحسن نے عدالت عالیہ کو مکتوب کے ذریعے اپنی آراء پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس بات کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ ہسپتالوں میں اس طرح کے واقعات کیوں پیش آتے ہیں اور مریض یا تیماردار کیوں اس طرح کی حرکت کرنے پر مجبور ہوتا ہے۔

انہوں نےکہا کہ ہسپتالوں میں مریضوں کو عزت نفس کے ساتھ علاج دستیاب نہیں ہے ’’ہسپتالوں میں مریضوں کے ساتھ بہتر سلوک نہیں کیا جاتا اور ناہی ان کے ساتھ ہمدرادانہ طریقے سے پیش آیا جاتا ہے اور ناہی انہیں اُمید کے مطابق علاج و معالجہ فراہم کیا جارہا ہے۔‘‘

انہوں نے کہا کہ ایک معالج اُس وقت تک ایک بہتر ڈاکٹر نہیں بن سکتا جب تک کہ نہ وہ ایک ہمدرد ہو۔ ’’ان کے مرض سے متعلق باتیں ان کی سنی جائیں گی لیکن ایسا نہیں ہوتا۔ ہسپتالوں میں ان کی کوئی سننے والا نہیں یہاں تک کہ ڈاکٹر مریض کا علاج کے دوران ہاتھ بھی لگانا گوارا نہیں کرتے جس سے مریض میں عدم اطمینان پیدا ہوتا ہے۔‘‘

انہوں نے کہا ہے کہ طبی عملہ کی جانب سے مریضوں کے ساتھ جو سلوک روا رکھا جا رہا ہے اس سے مریضوں اور تیمارداروں میں غصہ پیدا ہوتا ہے جس کے باعث مریض اور دیگر لوگ ڈاکٹروں کے ساتھ بھڑ جاتے ہیں ’’ایک ڈاکٹر کے غلط برتائو سے علاج کبھی کامیاب نہیں ہوگا اور نہ ہی کوئی مریض بہتر دوائی کے باوجود بھی ٹھیک ہوسکتا ہے۔‘‘

انہوں نے کہا کہ ہسپتالوں میں طبی قواعد و ضوابط اور ہدایت کو بالائے طاق رکھا جاتا ہے اور ’’میڈیکل کونسل آف انڈیا‘‘کی جانب سے جاری کردہ ہدایت نامہ اور طرز علاج ہسپتالوں کی دیواروں پر ضرور دکھائی دیتا ہے لیکن زمینی سطح پر اس پر عمل نہیں کیا جاتا۔

نثار الحسن نے کہا کہ مشاہدے میں آیا ہے کہ ہسپتالوںمیں ڈاکٹر مریضوں کے ساتھ ان کی سماجی اور گھریلو زندگی کے بارے میں بات نہیں کرتے اور اگر ایسا نہیں ہوگا تو ایک ڈاکٹر مریض کی ذہنی اور جسمانی کیفیت کس طرح جان سکتا ہے اور اگر ایک ڈاکٹر مریض کی طرف توجہ نہیں دیگا اُس سے ایک تو مریض مطمئن نہیں ہوتا اور اس کے اہلخانہ بھی ڈاکٹروں پر غصہ ہوجاتے ہیں جس کے باعث ہسپتالوں میں ایسے واقعات پیش آتے ہیں جو نہیں آنے چاہئیں۔

ڈاکٹرس ایسوسی ایشن کشمیر کے صدر نے کہا کہ ہسپتالوں میں مریض اور تیمار دار وہ سب کام خود ہی انجام دیتے ہیں جس کی ذمہ داری ہسپتال عملہ پر عائد ہوتی ہے۔

ABOUT THE AUTHOR

...view details