بھارت میں مقیم بیرونی ممالک کے سفارتکاروں کے جموں وکشمیر دورے سے تین روز قبل سرینگر میں چند مقامات پر سی آر پی ایف نے بنکر ہٹائے ہیں۔
سفارتکاروں کے دورے سے قبل سرینگر میں چند بنکر منہدم سی آر پی ایف کے ترجمان او پی تیواری نے ای ٹی وی بھارت کو فون پر بتایا کہ بنکروں کو سیکورٹی انتظامات کو مدنظر رکھ کر ہٹایا گیا ہے۔
انکا کہنا تھا کہ بیرونی ممالک سفارتکاروں کے دورہ کشمیر اور بنکروں کے ہٹانے کا کوئی ربط نہیں۔ تاہم سیکورٹی ذرائع نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ سفارتکاروں کے دورے کے پیش نظر شہر میں چند مقامات پر سے بنکر ہٹائے گئے ہیں اور دورے کے بعد انہیں سیکورٹی انتظامات کے پیش نظر دوبارہ تعمیر کئے جانے کا امکان ہے۔
قابل ذکر ہے کہ سنہ 2019 میں پانچ اگست کو دفعہ 370کی منسوخی کے ساتھ ہی وادی کشمیر خاص کر سرینگر میں متعدد مقامات پر سیکورٹی اہلکاروں کی تعیناتی بڑھا کر بنکروں میں بھی اضافہ کیا گیا تھا۔ اس کی خاص وجہ یہ تھی کہ مرکزی سرکار نے وادی میں اضافی سیکورٹی دستے تعینات کئے تھے۔
غور طلب ہے کہ یورپی ممالک کے سفارتکاروں کا وفد بدھ کو جموں وکشمیر کے دو روزہ دورے پر آرہا ہے۔
مزید پڑھیں؛ہلال لون کی گرفتاری پر محبوبہ مفتی برہم
مرکزی وزارت خارجہ کی جانب سے منعقد کیا جانے والا یہ دورہ اس وقت کیا جا رہا ہے جب سرکار نے چند ماہ قبل یہاں پہلی مرتبہ ضلع ترقیاتی انتخابات منعقد کروائے اور مین اسٹریم سیاسی سرگرمیاں بھی بحال ہونے دی۔
اس کے علاوہ مرکزی سرکار نے ڈیڑھ برس کی طویل پابندی کے بعد تیز رفتار انٹرنیٹ بھی حالیہ دنوں بحال کیا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ سفارتکار جموں و کشمیر میں موجودہ سیاسی صورتحال سے آگاہی حاصل کریں گے۔
نام مخفی رکھنے کے شرط پر ای ٹی وی بھارت کو ایک اعلی افسر نے بتایا کہ اس وفد کے دورے کے سلسلے میں زوروں سے تیاریاں کی جا رہی ہیں۔
مزید پڑھیں؛بغیر اجازت بیرون ملک دورہ کرنے پر ملازمین کو حکومت کا انتباہ
واضح رہے کہ دفعہ 370 کی منسوخی کے بعد 2020 میں مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے 25 سفارتکاروں پر مشتمل وفود نے کشمیر کا تین مرتبہ دورہ کیا تھا جس دوران انہوں نے سخت حفاظتی بندوبست کے تحت شہرہ آفاق جھیل ڈل کی سیر کے علاوہ مختلف عوامی و سیاسی وفود اور بعض صحافیوں کے ساتھ ملاقات کی تھی۔
ان دوروں کے دوران وادی میں سخت پابندیاں ہونے کے ساتھ ساتھ مواصلاتی نظام خصوصا انٹرنیٹ پر پابندی عائد تھی اور سابق وزرائے اعلی عمر عبداللہ، فاروق عبداللہ اور محبوبہ مفتی سمیت متعدد سیاسی رہنما قید میں تھے۔