سرینگر: جموں و کشمیر کے لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا کی انتظامیہ نے یونین ٹریٹری میں گذشتہ ہفتے تک چار لاکھ کے قریب سرکاری و کاہچرائی زمین سے لوگوں کا قبضہ ہٹایا کر اسے اپنی تحویل میں لیا ہے۔ انتظامیہ کا کہنا ہے کہ اس مہم میں اثر و رسوخ والے افراد سے زمین واپس لی جارہی ہے جنہوں نے بڑی تعداد میں زمین پر قبضہ کیا ہے۔ تاہم سرکاری اعداد شمار کے مطابق ابھی تک آٹھ سو کنال کے قریب زمین سے قبضہ ہٹایا گیا ہے جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ تعداد سرکار کے دعوے کے برعکس ہے۔
عام لوگوں کے علاوہ جن بااثر افراد سے زمینیں واپس لی گئی ہیں ان افراد میں کشمیر سے سابق وزیر علی محمد ساگر، سابق وزیر پیر زادہ محمد سعید، سابق وزیر حسیب درابو، سابق وزیر غلام حسن خان، سابق وزیر عمران انصاری، سابق وزیر تاج محی الدین، سابق ایم ایل سی صوفی یوسف شامل ہیں۔ اس کے علاوہ پولیس افسر باقر سامون، سابق بیروکریٹ فاروق رنزو، سابق وائس چانسلر سکاسٹ یونیورسٹی حشمت اللہ خان شامل ہیں۔
وہیں سرینگر میں نیڈوز ہوٹل کے مالکان سے بھی بیس کنال سرکاری زمین واپس لی گئی ہے۔ ان لوگوں پر 381 کنال سرکاری زمین پر قبضہ کرنے کا الزام تھا جب کہ 456 کنال کاہچرائی زمین لوگوں کے قبضے سے واپس لی جاچکی ہے۔ یاد رہے کہ یہ مہم یکم جنوری کو شروع کی گئی۔ انتظامیہ کا دعویٰ ہے کہ وادی کے دس اضلاع میں 663056 کنال سرکاری و کاہچرائی زمین پر قبضہ کیا گیا ہے جس میں 389590 کنال اراضی بازیاب کر لی گئی ہے۔ وادی میں 358720 کنال سرکاری زمین پر مبینہ طور پر قبضہ کیا گیا ہے جس میں سے گزشتہ ہفتے تک 216683 کنال سے بازیاب کیا گیا ہے۔ وہیں 304366 کنال کاہچرائی میں سے 172907 کنال بازیاب کئے گئے ہیں۔ جنوری کے مہینے میں انتظامیہ نے تقریباً ہر ضلع میں بلڈوزر کا استعمال کرکے کئی تعمیراتی ڈھانچے و دکان منہدم کیے، تاہم عوامی ناراضگی کے بعد یہ سلسلہ بند کیا گیا ہے۔