کشمیر کی اکثر تاریخی آبی پناگاہیں زبوں حالی کی داستان پیش کر رہی ہیں جبکہ آبی گزر گاہوں کی حالت بھی نہایت ہی ابتر بنی ہوئی ہے۔
آبی گزر گاہ "چونٹ کول" (ژونٹھ کول) کسی زمانے میں صاف و شفاف پانی کے لئے کافی مشہور ہوا کرتی تھی۔ ڈل جھیل کو دریائے جہلم سے جوڑنے والی اس نہر کے بیچ سیاح شکارہ میں سیر کیا کرتے تھے۔ لیکن افسوس آج کی تاریخ میں یہ خاموش موت مر رہی ہے۔ کوڑا کرکٹ، گندگی اور غلاظت کی وجہ سے یہ آبی گزر ڈمپنگ سائٹ میں تبدیل ہوگئی ہے۔
سرینگر کی معروف آبگاہ "چونٹ کول" کی زبوں حالی ڈل جھیل میں پانی کی سطح بڑھ جانے کی صورت میں اس نہر کو استعمال میں لایا جاتا ہے۔ حکومت کی عدم توجہ کے باعث جہاں"چونٹ کول" ناگفتہ بہہ حالت سے گزر رہی ہے۔ وہیں، خود غرض عناصر نے بھی اس میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی ہے ۔ گھروں سے نکلنے کچرے کو اسی کی نظر کیا جاتا یے جس کی وجہ سے یہ غلاظت اور آوارہ کتوں کی آمجگاہ بن چکی ہے۔گزشتہ مختلف ہائیوں سے اس آبی گزرگاہ کی صفائی ستھرائی نہ ہونے کے نتیجے میں آس پاس کے علاقوں میں رہنے والے لوگ مختلف بیماریوں میں مبتلا ہو رہے ہیں۔انتظامیہ شہر سرینگر کو سمارٹ سٹی بنانے کے دعوے تو کر رہی ہے لیکن ان آبی پناہ گاہوں اور نہروں کی جامع منصوبہ بندی کے بغیر سمارٹ سٹی کا خواب شرمندہ تعبیر ہونا زرا مشکل ہے۔لیکس اینڈ واٹر ویز ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے حکام کا کہنا ہے کہ اگرچہ "چونٹ کول" کے تحفظ کے حوالے سے ابھی تک کوئی منصوبہ نہیں بنایا گیا تھا تاہم لاڈا کی جانب سے اس سال نہر کی تجدید و مرت اور صفائی ستھرائی کے لئے پلان مرتب دیا گیا ہے۔لیکس اینڈ واٹر ویز ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے چیف انجنئیر فروز کے احمد نے چونٹ کول کی شان رفتہ کو بحال کرنے کی خاطر محکمہ یو ای ای ڈی اور دیگر متعلقہ ایجنسیوں سے بھی تعاون طلب کیا ہے۔