اردو

urdu

By

Published : Nov 23, 2022, 12:22 PM IST

ETV Bharat / state

Celebratory Gunfire in Srinagar: شادی کے جشنیہ میں فائرنگ، بندوق لائسنس پھر زیر بحث

سرینگر کے آلوچہ باغ میں شادی کی تقریب کے دوران جشن مناتے ہوئے پستول سے فائرنگ کے معاملہ نے کشمیر میں بندوق کے لائسنسوں کے سنڈیکیٹ کو ایک بار پھر زیربحث لایا ہے۔ Arms licenses in Kashmir under scanner again

1
1

سرینگر (جموں و کشمیر):چند روز قبل سرینگر شہر میں ایک شادی کی تقریب کے دوران خوشی کا اظہار کرتے ہوئے پستول سے گولیاں چلائی گئیں۔ اگرچہ اس شخص کے پاس پستول کی لائسنس تھی تاہم پولیس نے اس شخص کو اس الزام میں گرفتار کیا کہ ’’اس حرکت کی وجہ سے لوگوں کی جان خطرے میں آ گئی تھی۔‘‘ جہاں پولیس اس معاملے کی ابھی بھی تحقیقات کر رہی ہے، وہیں بندوق لائسنس کے اجرا کیے جانے پر ایک بار پھر مباحثہ شروع ہو گیا ہے۔ Celebratory Gunfire in Alocha Bagh Srinagar

پولیس کے ایک سینئر افسر نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ ’’وہ ویڈیو رواں مہینے کی 12 تاریخ کو منظرعام پر آیا تھا، پیر باغ، سرینگر کے رہنے والے معین خان نے االوچی باغ علاقے میں اپنے ایک رشتہ دار کی شادی کے دوران لائسنس شدہ پستول سے گولیاں چلائی تھی۔ جس کے بعد پولیس نے خان گرفتار کیا کیونکہ اس کی اس حرکت کی وجہ سے کئی لوگوں کی زندگیوں کو خطرہ لاحق ہو سکتا تھا۔‘‘ Kashmir Fake Gun License

خان کا معاملہ ایک استثناء کا ہو سکتا ہے، لیکن اس وجہ سے کشمیر میں بندوق کے لائسنسوں کی سنڈیکیٹ کو ایک بار پھر زیربحث لایا ہے۔ ایک اعلیٰ سرکاری افسر نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ ’’یہ لائسنس آرمس ایکٹ 1959 اور آرمز رولز 2016 کے تحت اجرا، تجدید اور منسوخ کیے جاتے ہیں۔‘‘ ان کا کہنا تھا کہ ’’اگر کسی شخص کو لگتا ہے کہ اس کی جان خطرے میں ہے تو وہ ایک درخواست دیکر اپنے متعلقہ پولیس اسٹیشن سے رجوع کرتا ہے۔ اس کے بعد درخواست سپرانٹنڈنٹ آف پولیس (ایس پی) کے دفتر کو بھیجی جاتی ہے۔ اور مناسب تصدیق کے بعد اسے ڈپٹی کمشنر کے دفتر بھیج دیا جاتا ہے۔ سنہ 2018 کے بعد وادی میں کسی کو بھی ہتھیاروں کے لائسنس اجرا نہیں کیے گئے ہیں۔‘‘ Kashmir Gun License Racket

وزارت داخلہ نے ایک رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ 2018 اور 2020 کے درمیان ملک بھر میں جاری کیے گئے کل 22,805 نئے بندوقوں کے لائسنسوں میں سے 78 فیصد 17,905 — صرف جموں و کشمیر میں جاری کیے گئے تھے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’’یکم جنوری 2018 سے 15 ستمبر 2020 کے درمیان ملک بھر میں کل 2,435 لائسنس منسوخ کیے گئے جبکہ جموں و کشمیر میں صرف تین منسوخ کیے گئے۔‘‘

تاہم، ایک سینئر پولیس افسر نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ ’’انتظامیہ نے گزشتہ تین برسوں سے جموں و کشمیر میں فائر آرم اسلحہ لائسنس جاری کرنے پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔ حال ہی میں شادی کی تقریب کے دوران پستول سے گولیاں چلانے کے الزام میں گرفتار ہونے والے شخص کو چار سال قبل لائسنس دیا گیا تھا۔ سینٹرل بیورو آف انویسٹی گیشن (سی بی آئی) نے پہلے ہی جموں و کشمیر کے تمام ڈپٹی کمشنروں سے کہا ہے کہ وہ کسی کو نیا لائسنس فراہم نہ کریں اور نہ ہی اس کی تجدید کریں۔‘‘

یہ پابندیاں اس وقت عائد کی گئیں جب سی بی آئی نے 2017 کے ایک معاملے کی تحقیقات شروع کی جس میں 2.78 لاکھ فرضی بندوق لائسنس شامل تھے جو مبینہ طور پر 2012 اور 2016 کے درمیان غیر مقامی لوگوں کو جاری کیے گئے تھے۔ جس کے بعد 17 مئی 2018 کو تحقیقات کے آغاز کے بعد سے، سی بی آئی نے مبینہ طور پر جموں و کشمیر میں مذکورہ بندوق لائسنسوں کے اجراء سے متعلق دستاویز جمع کیے ہیں۔

مزید پڑھیں:Shooting at Virginia Walmart ورجینیا میں فائرنگ، متعدد افراد ہلاک

انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ کے مطابق جموں و کشمیر میں غیر قانونی اسلحہ لائسنسوں کے ذریعے تقریباً 40 کروڑ روپے کمائے گئے۔ مارچ 2020 میں، سی بی آئی نے کپوارہ کے ضلع مجسٹریٹ کی حیثیت سے اپنے دور میں ہزاروں لائسنس جاری کرنے کے الزام میں دو افسران- کمار راجیو رنجن ( آئی اے ایس) اور عترت رفیقی (کے اے ایس) کو گرفتار کیا۔ جس کے بعد 25 جولائی 2021 کو ایجنسی نے جموں و کشمیر اور دہلی میں 40 مقامات پر چھاپے مارے جن میں سرینگر میں سینئر آئی اے ایس افسر شاہد اقبال چودھری کی رہائش گاہ بھی شامل تھی۔ اس کے تین ماہ بعد، سی بی آئی کے ایک اہلکار بصیر احمد خان کی رہائش گاہ پر بھی چھاپہ مارا گیا۔ یہ ہائی پروفائل چھاپہ خان کو لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا کے مشیر کے عہدے سے فارغ کیے جانے کے ایک ہفتے بعد مارا گیا۔

ABOUT THE AUTHOR

...view details