سرینگر (جموں و کشمیر):چند روز قبل سرینگر شہر میں ایک شادی کی تقریب کے دوران خوشی کا اظہار کرتے ہوئے پستول سے گولیاں چلائی گئیں۔ اگرچہ اس شخص کے پاس پستول کی لائسنس تھی تاہم پولیس نے اس شخص کو اس الزام میں گرفتار کیا کہ ’’اس حرکت کی وجہ سے لوگوں کی جان خطرے میں آ گئی تھی۔‘‘ جہاں پولیس اس معاملے کی ابھی بھی تحقیقات کر رہی ہے، وہیں بندوق لائسنس کے اجرا کیے جانے پر ایک بار پھر مباحثہ شروع ہو گیا ہے۔ Celebratory Gunfire in Alocha Bagh Srinagar
پولیس کے ایک سینئر افسر نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ ’’وہ ویڈیو رواں مہینے کی 12 تاریخ کو منظرعام پر آیا تھا، پیر باغ، سرینگر کے رہنے والے معین خان نے االوچی باغ علاقے میں اپنے ایک رشتہ دار کی شادی کے دوران لائسنس شدہ پستول سے گولیاں چلائی تھی۔ جس کے بعد پولیس نے خان گرفتار کیا کیونکہ اس کی اس حرکت کی وجہ سے کئی لوگوں کی زندگیوں کو خطرہ لاحق ہو سکتا تھا۔‘‘ Kashmir Fake Gun License
خان کا معاملہ ایک استثناء کا ہو سکتا ہے، لیکن اس وجہ سے کشمیر میں بندوق کے لائسنسوں کی سنڈیکیٹ کو ایک بار پھر زیربحث لایا ہے۔ ایک اعلیٰ سرکاری افسر نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ ’’یہ لائسنس آرمس ایکٹ 1959 اور آرمز رولز 2016 کے تحت اجرا، تجدید اور منسوخ کیے جاتے ہیں۔‘‘ ان کا کہنا تھا کہ ’’اگر کسی شخص کو لگتا ہے کہ اس کی جان خطرے میں ہے تو وہ ایک درخواست دیکر اپنے متعلقہ پولیس اسٹیشن سے رجوع کرتا ہے۔ اس کے بعد درخواست سپرانٹنڈنٹ آف پولیس (ایس پی) کے دفتر کو بھیجی جاتی ہے۔ اور مناسب تصدیق کے بعد اسے ڈپٹی کمشنر کے دفتر بھیج دیا جاتا ہے۔ سنہ 2018 کے بعد وادی میں کسی کو بھی ہتھیاروں کے لائسنس اجرا نہیں کیے گئے ہیں۔‘‘ Kashmir Gun License Racket
وزارت داخلہ نے ایک رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ 2018 اور 2020 کے درمیان ملک بھر میں جاری کیے گئے کل 22,805 نئے بندوقوں کے لائسنسوں میں سے 78 فیصد 17,905 — صرف جموں و کشمیر میں جاری کیے گئے تھے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’’یکم جنوری 2018 سے 15 ستمبر 2020 کے درمیان ملک بھر میں کل 2,435 لائسنس منسوخ کیے گئے جبکہ جموں و کشمیر میں صرف تین منسوخ کیے گئے۔‘‘