معروف ماہر تعلیم آغا اشرف علی گزشتہ رات کے دوران اپنی رہائش گاہ پر انتقال کرگئے۔ وہ 97 برس کے تھے۔ انہیں سنیچر کو سرینگر شہر کے علمگری بازار میں واقع آبائی مقبرے میں دفن کیا گیا۔ اشرف علی نے جموں و کشمیر میں تعلیمی نظام میں بہتری کے حوالے سے کلیدی کردار نبھایا ہے۔
آغا اشرف علی کے لواحقین کے مطابق وادی میں عالمی وبا کورونا وائرس کے خدشات کے پیش نظر کسی بھی قسم کی تعزیتی مجلس کا انعقاد نہیں کیا جائے گا تاہم عوام سے گزارش کی گئی ہے کہ فاتحہ خوانی ذاتی طور پر، بذریعے فون یا پھر سماجی رابطہ کی ویب سائٹ کے ذریعے بھی کر سکتے ہیں۔
سرینگر شہر میں 18 اکتوبر 1922 کو پیدا ہونے والے آغا اشرف علی، آغا ظفر علی قاضی باش کے سب سے چھوٹے فرزند تھے۔ ان کے خاندان میں تعلیم کو اولین ترجیح دی جاتی تھی۔ اشرف علی کی والدہ بیگم ظفر علی کشمیر کی پہلی خاتون تھیں جنہوں نے میٹرک کا امتحان پاس کیا تھا۔ اشرف علی کی ابتدائی تعلیم سری نگر کے مشہور مشنری اسکول میں ہوئی اور گریجویشن کی ڈگری انہوں نے شری پرتاپ کالج سے حاصل کی۔
کالج کے دوران سنہ 1941 میں اس وقت کے صدر جمہوریہ ڈاکٹر ذاکر حسین کی تقریر سے اشرف علی اتنے متاثر ہوئے کہ انہوں نے ذاکر حسین کو اپنا استاد مان لیا جس کے ساتھ ہی ان کی اپنی شخصیت میں بھی کافی تبدیلی آئی۔
گریجویشن مکمل کرنے کے بعد اشرف علی نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔ اپنی ذہانت اور قابلیت کی وجہ سے انہیں سنہ 1945 میں مورسن میڈل سے نوازا گیا۔ تاریخ کے مضمون میں ماسٹرز ڈگری امتحانات میں انہوں نے اول مقام حاصل کیا تھا۔ جس کے بعد انہوں نے دہلی کی جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی میں پڑھانا شروع کیا اور اس دوران وہ متعدد دانشوروں کے رابطے میں آئے۔ ان شخصیتوں میں ڈاکٹر ذاکر حسین، پروفیسر مجیب، پروفیسر حبیب، پروفیسر عابد حسین شامل ہیں۔ دانشوروں کے ساتھ تعلقات اچھے ہونے کے سبب انہیں مہاتما گاندھی اور مولانا ابوالکلام آزاد سے ملاقات کرنے کا بھی موقع ملا۔ اشرف علی ان سب شخصیات سے کافی متاثر ہوئے اور ان کے ذہن پر گہری چھاپ پڑی۔ ہند و پاک کی تقسیم کے بعد آغا اشرف علی کو واپس کشمیر آنا پڑا کیونکہ ان سے کہا گیا کی مزید اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے انھیں انگلستان جانا ہوگا۔
لکھنؤ کی رہنے والی صوفیہ سے نکاح کے بعد اشرف علی انگلینڈ کے لیے روانہ ہوگئے جہاں انہوں نے تعلیم کے نظام کے حوالے سے ڈپلومہ کا کورس کیا اور سنہ 1951 میں فرانس، جرمنی، سویڈن، سوئزرلینڈ اور ڈنمارک کا دورہ کر کے وہاں کے تعلیمی نظام کو جاننے کی کوشش کی۔ جس کے بعد وہ واپس کشمیر لوٹے، جہاں انہیں جموں و کشمیر کے اُس وقت کے وزیر اعظم شیخ محمد عبداللہ کے ساتھ بطور آفیسر اسپیشل ڈیوٹی پر تعینات کیا گیا۔
وادی آنے کے ایک برس بعد 1952 میں انہیں کشمیر کا انسپکٹر آف اسکولز بنایا گیا۔ آغا اشرف علی نے اپنے کیرئر میں کبھی بھی سمجھوتہ نہیں کیا۔ سنہ 1954 میں انہیں ٹیچرس کالج آف ایجوکیشن کا آفیشیٹنگ پرنسپل مقرر کیا گیا بعد میں انہیں نیشنل ایکسٹینشن ٹریننگ سینٹر کا پرنسپل بنایا گیا۔