سرینگر (نیوز ڈیسک):حکومت کی جانب سے مذہبی رہنماؤں کی نظر بندی اور جیل سے رہا کیے جانے کا سلسلہ ایک ایسے وقت میں شروع کیا گیا جب یونین ٹیریٹری جموں و کشمیر میں بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کا اعلان کیا جا چکا ہے۔ ایک جانب مین اسٹریم سیاسی جماعتیں ووٹرز کو لبھانے اور زیادہ سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے کی غرض سے ریلیز، پارٹی کنونشن اور جلسوں کا انعقاد کر رہی ہیں، وہیں دوسری جانب جموں و کشمیر انتظامیہ کی جانب سے مذہبی رہنماؤں، علیٰحدگی پسند لیڈران کو نظر بندی اور جیل سے رہا کیا جا رہا ہے۔
علیحدگی پسند لیڈران، مذہبی رہنماؤں کو امن و امان میں خطرہ قرار دیتے ہوئے بیشتر لیڈران کو جیل جب کہ بعض کو خانہ نظر بند رکھا گیا تھا۔ اسی تناظر میں میرواعظ کشمیر مولوی محمد عمر فاروق کو چار برس کی طویل نظر بندی کے بعد جمعہ کو رہا کیا جا رہا ہے۔ ایسے میں میرواعظ تاریخی جامع مسجد سرینگر میں آج جمعہ کا خطبہ دیں گے۔ میرواعظ محمد عمر فاروق کو 5 اگست 2019 کو دفعہ 370کی منسوخی سے قبل ہی اپنی رہائش گاہ واقع نگین، سرینگر میں نظر رکھا گیا تھا۔
میرواعظ کی رہائی سے قبل شعلہ بیاں مقررین اور مذہبی رہنماؤں - مولانا عبدالرشید داؤدی اور مولانا مشتاق احمد ویری - کو بھی گزشتہ دنوں جیل سے رہا کیا گیا۔ ان دونوں پر 2022 میں پبلک سیفٹی ایکٹ (پی ایس اے) کے تحت مقدمہ درج کرکے کوٹ بلوال جیل، جموں منتقل کیا گیا تھا۔ دونوں مبلغین - مشتاق ویری، عبد الرشید داؤدی - اپنی شعلہ بیانی کے لیے کافی مشہور ہیں اور ان کے مداحوں کا حلقہ بھی کافی وسیع ہے۔ داؤدی ’’تحریکِ صوت الاولیاء‘‘ نامی تنظیم کے سربراہ ہیں جبکہ ویری جمعیت اہلحدیث کے ساتھ وابستہ ہے۔ جموں کشمیر وقف بورڈ کی چیئرپرسن درخشاں اندرابی نے جمعیت اہل حدیث سے وابستہ مولانا مشتاق احمد ویری کے گھر جاکر ان کی رہائی پر انہیں مبارک باد بھی پیش کی۔ تاہم سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے بی جے پی کی سخت تنقید کرتے ہوئے کہا تھا: ’’انہوں (بی جے پی) نے ہی مذہبی رہنماؤں کو قید میں ڈالا اور اب انہیں رہا کرکے خود واہ واہی بٹور رہے ہیں۔‘‘