26 اکتوبر 1947 کو جموں و کشمیر کے مہاراجہ ہری سنگھ نے ہندوستان کے ساتھ الحاق کے معاہدے پر دستخط کیے۔ اس طرح سے جموں و کشمیر چند اہم شرائط کے ساتھ بھارت کا حصہ بن گیا۔ دستاویز الحاق پر دستخط کے بعد بھارتی فوج کشمیر میں داخل ہوئی۔
26 اکتوبر 1947 کو کیا ہوا:
ہندوستان کے آزادی ایکٹ، 1947 کے مطابق، برطانوی ہندوستان کو دو ملکوں یعنی ہندوستان اور پاکستان میں تقسیم کر دیا گیا۔ اس وقت ملک تقریباً 580 ایسی شاہی ریاستوں اور راجواڑوں میں تقسیم تھا جنہوں نے برطانیہ کی حکمرانی تسلیم کی تھی۔ چند شرائط کے ساتھ ان ریاستوں کو اختیار دیا گیا کہ وہ ہندوستان یا پاکستان کا حصہ بنیں۔ دو قومی نظریے کے تحت مسلم اکثریتی علاقوں میں پاکستان کے ساتھ الحاق کی خواہش تھی جبکہ ہندو اکثریتی علاقے ہندوستان کا حصہ بننا چاہتے تھے۔
ہندوستان آزاد ہونے سے قبل پہلے نائب وزیر اعظم سردار ولبھ بھائی پٹیل اور وی پی مینن کو یہ کام سونپا گیا کہ وہ راجواڑوں کے الحاق اور انضمام کا انتظام کریں۔ تمام ریاستوں نے اپنی صوابدید کے مطابق بھارت یا پاکستان کا انتخاب کیا لیکن جموں و کشمیر، حیدرآباد اور جوناگڑھ جیسی ریاستیں حتمی فیصلہ نہ کرسکیں۔ جموں و کشمیر مسلم اکثریتی علاقہ تھا لیکن اسکا حکمران ہندو تھا جو ریاست کو خود مختار بنانے کا خواہش مند تھا۔ جوناگڑھ اور حیدرآباد میں آبادی ہندو اکثریت پر مشتمل تھی لیکن انکے حکمران مسلمان تھے اور وہ پاکستان کے ساتھ جانا چاہتے تھے۔ بعد میں 7 نومبر 1947 کو جوناگڑھ نے بھارت کے ساتھ الحاق کیا۔ حیدرآباد ایک سال تک آزاد رہا اور یہاں نظام کی حکومت قائم رہی، بعد میں آپریشن پولو کے تحت فوج نے حیدرآباد کا محاصرہ کیا، چار روز تک سخت چھڑپیں ہوئیں۔ اس دوران ایک رپورٹ کے مطابق 10 لاکھ لوگ جھڑپوں میں ہلاک ہو گئے، وہیں مرکزی سرکار کے مطابق آپریشن پولو میں ایک لاکھ لوگ ہلاک ہوئے ہیں۔ فوج نے چار روزہ محاصرے کے بعد حیدآباد ریاست پر قبضہ کیا۔
15اگست 1947 کو انگریزوں کے برصغیر چھوڑنے کے بعد، جموں و کشمیر کی شاہی ریاست 73 دنوں تک آزاد رہی۔
آزادی ایکٹ کے سیکشن 6 کے مطابق ابتدا میں مہاراجہ نے آزاد رہنے کا من بنایا تھا۔ وہ بھارت اور پاکستان کے ساتھ یکساں دوری پر رہنا چاہتے تھے لیکن مؤرخین کے مطابق پاکستان نے قبائلیوں کے ذریعے حملہ کرایا جنہیں واپس دھکیلنے کیلئے مہاراجہ نے ہندوستان سے مدد طلب کی چنانچہ اسی مدد کے عوض مہاراجہ نے ہندوستان کے ساتھ دستاویز الحاق پر مشروط دستخط کئے۔
انسٹرومنٹ آف ایکشن یعنی الحاق کیا کہتا ہے:
دستاویز الحاق میں شامل شیڈول نے پارلیمنٹ کو جموں و کشمیر کے حوالے سے صرف دفاع، امور خارجہ اور مواصلات پر قانون سازی کرنے کا اختیار دیا ہے۔ دستاویز میں شق 5 میں مہاراجہ نے واضح طور پر ذکر کیا ہے کہ ’’میرے انسٹرومنٹ آف ایکسیشن کی شرائط ایکٹ یا انڈین انڈیپنڈنس ایکٹ کی کسی ترمیم سے تبدیل نہیں ہو سکتی ہیں جب تک کہ اس انسٹرومنٹ کے ضمنی انسٹرومنٹ کے ذریعے اس طرح کی ترمیم کو میرے ذریعہ قبول نہ کیا جائے۔‘‘
ایکسیشن ایکٹ کے شق 7 کیا کہتی ہے:
"اس انسٹرومنٹ میں کوئی بھی چیز ڈومینین لیجسلیچر کو اس ریاست کے لیے کوئی قانون بنانے کا اختیار نہیں دے گی جو کسی بھی مقصد کے لیے زمین کے لازمی حصول کی اجازت دے۔
پانچ اگست 2019کو مرکزی سرکار نے جموں و کشمیر کی نیم خود مختاری دفعہ 370 اور 35 اے کو منسوخ کرکے جموں و کشمیر کو دو مرکزی زیر انتظام علاقوں میں تقسیم کیا۔ مرکزی سرکار نے جموں و کشمیر میں جموں و کشمیر ری آرگینائزیشن ایکٹ لاگو کر کے جموں وکشمیر میں نئے قوانین کو لاگو کرکے جموں وکشمیر کے کئی پُرانے قوانین کو کالعدم کیا گیا۔ نریندر مودی کی حکومت کا کہنا ہے کہ جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کو ختم کرنے کے بعد کشمیر کا مسئلہ مکمل طور حل کر دیا گیا ہے اور اس علاقے کو وہی درجہ دیا گیا ہے جو ملک کے دیگر علاقوں کو حاصل ہے۔ کشمیر کی علیحدگی پسند جماعتوں بشمول جماعت اسلامی، جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ اور ڈیموکریٹک فریڈم پارٹی کو غیر قانونی قرار دیا گیا جبکہ اکثر علیحدگی پسند لیڈروں کو جیلوں بیں بند کر دیا گیا۔ نہ صرف جموں و کشمیر کا آئین منسوخ کیا گیا بلکہ ریاست کا الگ جھنڈا بھی ختم کیا گیا۔ اردو، جسے واحد سرکاری زبان ہونے کا امتیاز حاصل تھا، اب یوٹی کی پانچ سرکاری زبانوں میں سے ایک ہے۔