سرینگر:شہر سرینگر کی پرتاپ پارک میں ہر ماہ کی دس تاریخ کو ایسوسی ایشن فار پیرنٹس آف ڈس اپیرڈ پرسنز Association for Parents of Disappeared Persons خاموش احتجاج کرتے تھے۔ یہ احتجاج کشمیر کے ان افراد کے اہل خانہ کی جانب سے کرائے جاتے تھے جن کے گھر کا کوئی فرد شورش زدہ کشمیر میں لاپتہ ہوا اور بعد میں اس کا کوئی پتہ نہیں چلا۔ ان افراد کو سرینگر کی ایک خاتون اور سنہ 2017 میں انسانی حقوق کے لیے رافٹو انعام پانے والے پروینہ آہنگر نے ای پی ڈی پی کے تحت یکجا کیا تھا، لیکن سنہ 2019 کے اگست کے بعد یہ مظاہرے ختم ہوئے اور مظاہرین بھی پرتاپ پارک سے غائب ہیںParveena Ahanger human rights activist of kashmir
دفعہ 370 کی منسوخی کے بعد مرکزی سرکار نے کشمیر میں انسانی حقوق کے کارکنان اور اداروں پر شکنجہ کس کر انہیں خاموش کیا۔پروینہ آہنگر کے گھر پر سنہ 2020 کے اکتوبر میں این آئی اے نے چھاپے ڈالے اور ان سے پوچھ گچھ بھی کی۔ اس روز سے پروینہ اہنگر خاموش ہیں اور اے پی ڈی پی غیر فعال ہے۔APDP in Active After Article 370 Abrogration
سرینگر کے دوسری رافٹو انعام یافتہ انسانی حقوق کارکن خرم پرویز کو حکام نے سنہ 2021 میں یو اے پی اے کے تحت مقدمات درج کرکے قید کیا ہے اور ان کا ادارہ کولیشن آف سول سوسائٹی بھی تب سے غیر فعال ہے۔این آئی اے نے مبینہ ٹیرر فنڈنگ کے الزام میں خرم پرویز کو گرفتار کر کے تہاڑ جیل میں بند کر دیا۔خرم پرویز جموں کشمیر کولیشن آف سول سوسائٹی' کے کواڈینیٹر تھے جس نے کشمیر میں شورش کے دوران حقوِق انسانی کی مبینہ خلاف ورزیوں پر متعدد رپورٹس شائع کیں جن کو عالمی سطح پر تشہیر ملی۔Khurram Pavaiz Detained Under UAPA