نئی دہلی: سپریم کورٹ کے سابق جج سنجے کشن کول نے ای ٹی وی بھارت کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں کہا کہ ان کا ماننا ہے کہ مفاہمت کا ایک راستہ موجود ہے اور کشمیر میں لوگوں کو اپنی جڑوں تک واپس جانے کے لیے ایک ماحول بنانا چاہیے۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ، کشمیر میں اکثریت کو اقلیت کے ساتھ الحاق کے لیے کچھ اقدامات کرنے چاہئیں۔ اس خصوصی انٹرویو میں انہوں نے اس مسئلے سے متعلق مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی۔
سوال: آپ نے کہا کہ آپ کشمیر میں جلے ہوئے اپنے گھر کو دوبارہ بنانے کا ارادہ کر رہے ہیں، کیا آپ تفصیل بتا سکتے ہیں؟
جواب: ذاتی طور پر، ہم نے مسئلہ کی ابتداء میں (کشمیری پنڈتوں کے مائگریشن کے دوران) دو کاٹیج کھو دیے، بظاہر کچھ باغی وہاں چھپے ہوئے تھے اور جب پولیس وہاں گئی تو انہوں نے گھر کو آگ لگا دی۔ 2005 میں کچھ مقامی سیاسی لوگ جو اس میں دلچسپی رکھتے تھے اور حکومت اس گھر کو اپنے قبضے میں لینا چاہتے تھی، یہ تو باغیوں کی وجہ سے نہیں ہوا۔ ایسے میں ہم نے مزاحمت کی۔ میں نے سوچا کہ واپس نہ آنے کا یہ اشارہ تھا، ہم نے مہمان نوازی کے لیے گھر دوبارہ تیار کیا اور میں 34 سال بعد دو ہفتے اس گھر میں رہا۔ میں سمجھتا ہوں کہ چند سالوں میں (کشمیر میں) بہت زیادہ بہتری آئی ہے، حقیقت پسندی کا آغاز ہوا ہے۔
سوال: کیا آپ آرٹیکل 370 پر فیصلہ لکھتے ہوئے جذباتی تھے؟
جواب: ایک جج کی حیثیت سے آپ کو ایسے مسائل سے نمٹنے کی تربیت دی گئی ہے اور یہ مجھ سے جڑا ہوا تھا، لیکن میرے سوچنے کے عمل میں قانونی نقطہ میرے ذہن سے غیر مربوط تھا۔ میں نے کشمیر کی تاریخ کے بارے میں اپنے علم کے ساتھ فیصلے کو کھولا .... جو ایپیلاگ میں نے لکھا وہ جذباتی مواد تھا کیونکہ سماعت شروع ہونے سے ایک طویل عرصہ سے یہ میرے ذہن میں تھا کہ ہمیں آگے بڑھنا ہے۔ 1947 کے بعد کی طرح، لوگ زیادہ پریشان تھے اور لگتا تھا سب ختم ہوگیا لیکن تہذیب آگے بڑھی۔ تہذیب کو آگے بڑھنا چاہیے ورنہ جو کچھ ہوا ہے اس سے باہر نکل نہیں پائیں گے۔ لہذا، جو کچھ ہوا ہے اسے قبول کرنا بحالی کا عمل ہے۔
سوال: کیا آپ کے خیال میں اتنے سال گزر جانے کے بعد اب مفاہمت کا کوئی راستہ موجود ہے؟
جواب: میرا ایسا مانتا ہے کہ، ایسا نہیں ہے کہ جو لوگ چلے گئے ہیں وہ اچانک واپس آجائیں گے، ایسا ہونے والا نہیں ہے۔ انہوں نے اپنی زندگی اسٹابلش کر چکے ہیں۔ میرے پاس دوسری نسل کے لوگ ہیں، جنہوں نے اپنی زندگی مکمل طور پر کہیں اور قائم کی ہے۔ اس میں بیرون ملک اور ملک کے مختلف حصے شامل ہیں۔ لیکن وہ اپنے خیالات کا اظہار کرتے رہتے ہیں کہ انھیں واپس جانا پسند ہے کیونکہ آپ کی جڑیں وہیں ہیں۔ ہمیں ایسا ماحول بنانا چاہیئے کہ کم از کم وہ اس جگہ کا دورہ کریں جہاں سے وہ ہے۔ اگر وہ اس جگہ کو دیکھنے کے لیے اپنے لیے رکھنا پسند کرتا ہے تو تب ہی بحالی کا عمل مکمل ہوگا۔