سرینگر:جموں وکشمیر پورے ملک کا پہلا اور واحد ایسا خطہ ہے جہاں 4 برسوں سے کوئی عوامی منتخبہ حکومت نہیں ہے اور اس تاریخی ریاست کی یہ نوعیت نئی دلی کے اُن دعوﺅں پر سوالیہ نشان لگا دیتی ہے، جن کے ذریعے بھارت کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت قرار دیا جاتا ہے۔ان باتوں کا اظہار نیشنل کانفرنس کے معاون جنرل سکریٹری ڈاکٹر شیخ مصطفےٰ کمال نے آج پارٹی ہیڈکوارٹر پر کارکنوں کے ایک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
انہوں نے کہا کہ نئی دلی گذشتہ 4سال سے جموں وکشمیر پر ایل جی انتظامیہ کے ذریعے براہ راست حکمرانی کررہی ہے۔ ایسے انتظام کی ایک جمہوری نظام میں کوئی جگہ نہیں۔ اس عرصے میں حکمرانوں نے اگر کچھ کیا ہے تو وہ جموں و کشمیر کے عوام کو پشت بہ دیوار اور اندھیروں میں دھکیلنے کے سوا کچھ نہیں۔
انہوں نے کہا کہ مرکزی حکومت 5 اگست 2019 کے اعداد و شمار کو لیکر ایک وائٹ پیپر جاری کرے اور ملک کے عوام کو بتائے کہ یہاں کتنا امن و امان قائم ہوا؟ کتنے پروجیکٹ شروع کیے گئے؟ یہاں کتنے لوگوں کو ملازمتیں اور روزگار فراہم کیا گیا؟ یہاں کتنی سڑکیں بنائی گئیں؟ کتنے بجلی پروجیکٹ اور واٹر ٹریٹمنٹ اسکیمیں تعمیر کی گئیں؟
ان کا کہنا تھا کہ 5 اگست 2019 کے بعد یہاں کچھ نیا کرنے کے بجائے پرانے پروجیکٹوں کا افتتاح اور نئے سرے سے سنگ بنیاد رکھا گیا اور اسی کی خوب تشہیر بازی کی گئی۔ جس سمارٹ سٹی پروجیکٹ کی آج کل خوب تشہیر بازی کی جارہی وہ بھی سابق عوامی حکومت کا ہی پروجیکٹ ہے، جس پر کام شروع کرنے میں 4 سال کی دیر ہوئی اور آخر پر یک مشت کام شروع کرکے لوگوں کو زبردست مشکلات میں ڈال دیا گیا ہے۔ڈاکٹر کمال نے کہا کہ سمارٹ سٹی پروجیکٹ ایک خوش آئندہ اقدام ہے،لیکن اس پروجیکٹ کے نام پر سڑکوں کو تنگ کرنا سمجھ سے بالاتر ہے۔