اردو

urdu

ETV Bharat / state

Cancer Survivor Sajad Nazki کینسر کو مات دینے والا کیسے بنا کینسر مریضوں کا معاون

کینسر سے جوجھنے اور علاج کے دوران مشقتیں جھیلنے والے کشمیری نوجوان، جو کینسر سے جانبر ہو چکے ہیں، اب اس مہلک مرض میں مبتلا مریضوں کی کاؤنسلنگ انجام دے رہے ہیں۔

a
a

By

Published : Jun 8, 2023, 3:00 PM IST

کینسر کو مات دینے والا کیسے بنا کینسر مریضوں کا معاون

سرینگر (جموں و کشمیر):مرکزی سرکار کی جانب سے حالیہ دنوں جاری کردہ اعدد و شمار کے مطابق جموں و کشمیر میں گزشتہ چار برس کے دوران 51000 افراد مہلک بیماری کینسر کے عارضہ میں مبتلا ہوئے ہیں۔ اس کے مزید اس بیماری سے ہونے والی اموات میں بھی تیزی دیکھی گئی ہے، مرکزی وزارت صحت کے مطابق جموں و کشمیر میں 2018 اور 2022 کے درمیان کل 35,623 افراد کینسر کی وجہ سے ہلاک ہوئے ہیں۔

یہ اعداد و شمار جیتنے خوفناک ہیں اتنا ہی دردناک سفر کینسر کے عارضہ میں مبتلا مریض کو علاج کے دوران سہنا پڑتا ہے۔ کیموتھراپی ہو یا سرجری یہ پھر علاج کا خرچ، کینسر کے مریض کی کمر توڑ دیتا ہے۔ کئی مریض بہتر علاج کے لیے جموں و کشمیر سے باہر چلے جاتے ہیں وہیں بعض افراد اس بیماری کو اپنی قسمت تسلیم کر کے زندگی کے بقیہ دن گزارتے ہیں۔ مرکزی سرکار اور خطے کی انتظامیہ کی جانب سے کئی اسکیمیں اور اقدام بھی اٹھائے گئے ہیں تاہم بیداری کے لیے بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ سرینگر شہر کے رہنے والے 40 سالہ سجاد احمد نازکی تب 28 برس کے تھے جب اُن کے کینسر کی تشخیص ہوئی تھی۔ آسودہ خاندان سے تعلق رکھنے والے نازکی کا علاج ممبئی کے ٹاٹا ہسپتال میں تقریباً ایک سال تک جاری رہا جسکے بعد وہ صحت یاب ہوئے، تاہم آج بھی انہیں فالو اپ کے لئے ہسپتال جانا پڑتا ہے۔

ای ٹی وی بھارت کے ساتھ خصوصی گفتگو کے دوران انہوں نے کہا: ’’سنہ 2013 میں مجھے معلوام ہوا کہ میں کینسر میں مبتلا ہو چکا ہوں۔ میں نے ہمت نہیں ہاری، گھروالوں نے ساتھ دیا اور میرا علاج ایک سال تک جاری رہا۔ اس دوران کیموتھراپی کے 16 سائیکل، ریڈئیشن 30 فیکشن اور اس کے علاوہ گردن کی سرجری بھی ہوئی۔ کینسر اتنا پھیلا چکا تھا کہ 30 منٹ تک ریڈیشن کا عمل جاری رہا، اس کی وجہ سے دانتوں کا جبڑا خراب ہو گیا ہے اور اب یہ بھی نکالنا ہے۔‘‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’’اب میں ٹھیک ہو چکا ہوں، لیکن فالو اپ کے لیے اسپتال جانا پڑتا ہے۔ فالو اپ بہت ضروری ہے کیونکہ یہ بیماری دوبارہ نمودار ہو سکتی ہے اور اگر بیماری واپس آئی تو فالو آپ میں معلوم ہو جائے گا اور وقت پر علاج بھی ممکن ہو سکے گا۔ اپنے علاج کے دوران میں کبھی نہیں گھبرایا، خدا پر بھروسہ تھا اور پتہ ہے موت سب کو آنی ہے، میں شکر گزار ہوں کہ ابھی تک زندہ ہوں۔‘‘

اگرچہ نازکی صحت یاب ہو گئے لیکن ہر کوئی اتنا خوش قسمت نہیں ہوتا۔ کچھ لوگ غریبی کی وجہ سے اور کچھ بیداری کی کمی کی وجہ سے ہار مان لیتے ہیں۔ ان سب مریضوں کو صحیح راہ دکھانے اور مشورہ دینے کے لیے نازکی نے ایک منفرد پہلے کی ہے۔ انہوں نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا: ’’جب میں ممبئی گیا تھا تو کوئی راہ دکھانے والا نہیں تھا۔ جتنا خرچہ آیا اس سے کم میں ہی علاج ممکن ہو پاتا لیکن کوئی رہبر ہی نہیں جو رہبری کرتا، صحت یاب ہونے کے بعد میں نے فیصلہ کیا کہ میں جتنا ہو سکے کینسر مریضوں کی مدد کروں گا۔ تقریباً دس برس ہو گئے اور میں سینکڑوں مریضوں کی مشوروں سے مدد کر چکا ہوں۔‘‘

نازکی کا مزید کہنا تھا کہ ’’مجھے (مدد کے لیے کبھی بھی) فون کال آتی ہے تو میں فوری طور مدد کے لیے نکل جاتا ہوں، کاؤنسلنگ کے لیے مدد ہو یا مالی معاونت میں پیش پیش رہتا ہوں۔ میں ہمیشہ کینسر میں مبتلا مریضوں، ان کے اہل خانہ کو سپورٹ دینے کی پوری کوشش کرتا ہوں کہ کس طرح سے ان کا کم سے کم وقت اور پریشانیوں سے پاک علاج ممکن ہو سکے اور کس طرح وہ کم سے کم خرچہ پر بہتر علاج کرا سکیں۔‘‘ انہوں نے کہا کہ وہ مریضوں کو وادی کشمیر سمیت بیرون ریاست کے اسپتالوں کے ساتھ بھی راست رابطے میں رہتے ہیں اور مریضوں کی اعانت کے لئے ہمیشہ پیش پیش رہتے ہیں جبکہ بعض اوقات وہ مریضوں کے ساتھ اسپتال بھی جاتے ہیں۔

مزید پڑھیں:کینسر سے صحتیاب ہونے والے شخص نے کورونا کو بھی مات دے دی

کینسر کے علاج کے دوران ہوئے تجربات کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا: ’’کینسر کے علاج کے دوران میں نے کافی کچھ سیکھا، اس بیماری سے مجھے بس ایک ہی نقصان ہوا کہ رشتہ ازدواج میں نہ بندھ سکا۔‘‘ انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا: ’’ایک کینسر مریض کے ساتھ بھلا كون شادی کرے؟‘‘ تاہم انہوں نے اہل خانہ کی ستائش کرتے ہوئے کہا: ’’گھر والوں نے ہمیشہ میرا ساتھ دیا اور برے وقت میں میرے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے رہے۔‘‘

For All Latest Updates

ABOUT THE AUTHOR

...view details