سرینگر (جموں و کشمیر):مرکزی سرکار کی جانب سے حالیہ دنوں جاری کردہ اعدد و شمار کے مطابق جموں و کشمیر میں گزشتہ چار برس کے دوران 51000 افراد مہلک بیماری کینسر کے عارضہ میں مبتلا ہوئے ہیں۔ اس کے مزید اس بیماری سے ہونے والی اموات میں بھی تیزی دیکھی گئی ہے، مرکزی وزارت صحت کے مطابق جموں و کشمیر میں 2018 اور 2022 کے درمیان کل 35,623 افراد کینسر کی وجہ سے ہلاک ہوئے ہیں۔
یہ اعداد و شمار جیتنے خوفناک ہیں اتنا ہی دردناک سفر کینسر کے عارضہ میں مبتلا مریض کو علاج کے دوران سہنا پڑتا ہے۔ کیموتھراپی ہو یا سرجری یہ پھر علاج کا خرچ، کینسر کے مریض کی کمر توڑ دیتا ہے۔ کئی مریض بہتر علاج کے لیے جموں و کشمیر سے باہر چلے جاتے ہیں وہیں بعض افراد اس بیماری کو اپنی قسمت تسلیم کر کے زندگی کے بقیہ دن گزارتے ہیں۔ مرکزی سرکار اور خطے کی انتظامیہ کی جانب سے کئی اسکیمیں اور اقدام بھی اٹھائے گئے ہیں تاہم بیداری کے لیے بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ سرینگر شہر کے رہنے والے 40 سالہ سجاد احمد نازکی تب 28 برس کے تھے جب اُن کے کینسر کی تشخیص ہوئی تھی۔ آسودہ خاندان سے تعلق رکھنے والے نازکی کا علاج ممبئی کے ٹاٹا ہسپتال میں تقریباً ایک سال تک جاری رہا جسکے بعد وہ صحت یاب ہوئے، تاہم آج بھی انہیں فالو اپ کے لئے ہسپتال جانا پڑتا ہے۔
ای ٹی وی بھارت کے ساتھ خصوصی گفتگو کے دوران انہوں نے کہا: ’’سنہ 2013 میں مجھے معلوام ہوا کہ میں کینسر میں مبتلا ہو چکا ہوں۔ میں نے ہمت نہیں ہاری، گھروالوں نے ساتھ دیا اور میرا علاج ایک سال تک جاری رہا۔ اس دوران کیموتھراپی کے 16 سائیکل، ریڈئیشن 30 فیکشن اور اس کے علاوہ گردن کی سرجری بھی ہوئی۔ کینسر اتنا پھیلا چکا تھا کہ 30 منٹ تک ریڈیشن کا عمل جاری رہا، اس کی وجہ سے دانتوں کا جبڑا خراب ہو گیا ہے اور اب یہ بھی نکالنا ہے۔‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’’اب میں ٹھیک ہو چکا ہوں، لیکن فالو اپ کے لیے اسپتال جانا پڑتا ہے۔ فالو اپ بہت ضروری ہے کیونکہ یہ بیماری دوبارہ نمودار ہو سکتی ہے اور اگر بیماری واپس آئی تو فالو آپ میں معلوم ہو جائے گا اور وقت پر علاج بھی ممکن ہو سکے گا۔ اپنے علاج کے دوران میں کبھی نہیں گھبرایا، خدا پر بھروسہ تھا اور پتہ ہے موت سب کو آنی ہے، میں شکر گزار ہوں کہ ابھی تک زندہ ہوں۔‘‘