وادی میں آوارہ کتوں کی بڑھتی آبادی انسانوں کے لیے وبال جان بن چکی ہے۔ کتوں کو انسانی خون کا اس قدر چسکا لگا ہے کہ گزشتہ دس برس کے دوران صرف صدر ہسپتال سرینگر کے اینٹی ریبیز کلینک میں 60 ہزار ایسے مریضوں کا علاج کیا گیا ہے جنہیں کتوں نے کاٹ لیا تھا اور ان میں سے 80 فیصد معاملات کا تعلق صرف سرینگر شہر سے تھا۔
ایک رپورٹ کے مطابق سرینگر اور جموں کی میونسپل حدود میں سالانہ 10 ہزار لوگوں کو آوارہ کتے کاٹتے ہیں وہیں دیگر قصبہ جات اور دیہات میں بھی لوگوں کے تئیں آوارہ کتوں کے ذریعے کاٹے جانے کے واقعات میں بھی اضافہ ہو گیا ہے۔
کتوں کی بڑھتی آبادی کو قابو میں کرنے کے لیے گزشتہ دس برس کے دوران کوئی موثر حکمت عملی وجود میں نہیں لائی گئی ہے۔ شہامہ سرینگر میں کتوں کی افزائش کو کم کرنے کی خاطر چند کمروں پر مشتمل ایک ہسپتال تو ہے لیکن موجودہ سہولت کے اعتبار سے اور کتوں کی آبادی کے حساب سے وہ نہ کے برابر ہے۔ اور جس رفتار سے وہاں کتوں کی نس بندی عمل میں لائی جاتی ہے اس سے کتوں کی آبادی پر قابو پانا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔
جس طرف بھی نظر پڑتی ہے آوارہ کتے نظر آتے ہیں۔ دوکانوں کے سامنے، کھڑی گاڑیوں کے نیچے اور سڑک کے کنارے کتے اپنا ڈھیرہ جمائے ہوتے ہیں جبکہ نکڑ، گلی کوچے اور ہر محلے میں آوارہ کتوں کی بھر مار ہے۔