اردو

urdu

By

Published : Dec 26, 2019, 7:51 PM IST

ETV Bharat / state

کشمیر 2019: جب تعلیمی سرگرمیاں نصف سال تک بھی جاری نہ رہ سکیں

وادی کشمیر میں پانچ اگست کے بعد پیدا شدہ غیر یقینی صورتحال کے باعث جہاں مختلف شعبہ ہائے حیات متاثر ہوئے وہیں معاشرے کے حساس ترین شعبہ تعلیم پر مرتب ہوئے منفی اثرات کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ پانچ اگست کے بعد یہاں کے تعلیمی اداروں میں امتحانات منعقد ہونے تک تدریسی عمل بحال ہی نہیں ہوسکا جس کے نتیجے میں طلبا کا نصف سے بھی کم ہی نصاب مکمل ہوسکا لیکن انہیں امتحان پورے نصاب کا دینا پڑا۔

فائل فوٹو
فائل فوٹو

بتادیں کہ مرکزی حکومت کے پانچ اگست کے جموں کشمیر کو دفعہ 370 اور دفعہ 35 اے کے تحت حاصل خصوصی اختیارات کی تنسیخ اور ریاست کو دو وفاقی حصوں میں منقسم کرنے کے فیصلوں کے بعد وادی میں غیر اعلانیہ ہڑتالوں کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہوا اور تعلیمی اداروں میں تعلیمی سرگرمیاں معطل ہوئیں اور تمام طرح کی انٹرنیٹ اور ایس ایم ایس خدمات معطل ہوئیں جو ہنوز بند ہی ہیں۔

وادی میں تعلیمی شعبے کی رہی سہی کسر انٹرنیٹ اور ایس ایم ایس خدمات پر جاری پابندی پوری کردی۔ وادی کے طلبا کو اسکالرشپ فارم، داخلہ فارم یا امتحانی فارم جمع کرنے کے لئے گوناگوں مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے یہاں تک کہ مختلف مسابقتی امتحانات کی تیاریوں میں مصروف طلبا اور ریسرچ اسکالروں کو اس قدر دقتوں کا سامنا ہے کہ بعض طلبا نے افسر کی کرسی پر بیٹھنے کے خواب کو ہی خیرباد کہہ دیا ہے اور بعض نے وادی کو ہی الوداع کہنے پر مجبور ہوئے ہیں جبکہ کئی ریسرچ اسکالروں کے ریسرچ پیپر مکمل ہی نہیں ہوپارہے ہیں۔

طلبا کو اسکالر شپ فارم، داخلہ فارم یا امتحانی فارم جمع کرنے میں ہفتے لگ گئے بصورت دیگر یہ کام منٹوں میں ہی انجام پاتا تھا۔
حکومت نے اگرچہ ضلع صدرمقامات پر این آئی سی سینٹر کھول دیے تاکہ طلبا استفادہ کرسکیں لیکن ان میں دستیاب ناکافی سہولیات اور ایس ایم ایس سروس کی معطلی سے طلبا کو کوئی خاص فائدہ نہیں پہنچ رہا ہے۔
وادی میں جاری غیر یقینی اگرچہ آسودہ حال گھرانوں کے بچے بیرون ریاست جاکر اپنے تعلیمی مستقبل کو آراستہ وپیراستہ کرنے میں مصروف ہیں لیکن غریب گھرانوں کے طلبا کے بہتر تعلیمی مستقبل کے خواب شرمندہ تعبیر ہونے کی امیدیں کہیں نظر نہیں آرہی ہیں۔
وادی کشمیر میں رواں برس تعلیمی سال کا نصف سے بھی زیادہ حصہ نامساعد حالات کا نذر ہوا جس سے طلبا کے تعلیمی مستقبل پر گہرے منفی اثرات مرتسم ہوئے کیونکہ جہاں ایک طرف تعلیمی اداروں میں سالانہ امتحانات کے انعقاد تک تعلیمی سرگرمیاں بحال ہی نہیں ہوسکیں جس کے نتیجے میں طلبا نصف سے بھی کم نصاب ہی مکمل کرسکے وہیں وہ اضطرابی اور غیر یقینی صورتحال کے سایہ فگن رہنے سے مختلف ذہنی پریشانیوں میں مبتلا ہوئے۔
ادھر وادی میں طلبا ابھی غیر یقینی صورتحال کے بھنور میں ہی پھنسے تھے کہ جموں کشمیر بورڈ آف اسکول ایجوکیشن نے دسویں اور بارہویں جماعت کے امتحانات کے لئے ڈیٹ شیٹ جاری کیا اور ماہ اکتوبر کی 29 تاریخ سے دسویں جماعت کے اور 30 اکتوبر سے بارہویں جماعت کے امتحانات کا انعقاد عمل میں لایا گیا۔

طلبا کی طرف سے احتجاج کے باوصف بھی متعلقہ محکمے نے نصاب میں کوئی رعایت نہیں کی جس سے طلبا کی پریشانیوں میں مزید اضافہ ہوا۔
جے کے بوس کی طرف سے نامساعد حالات کے بیچ دسویں اور بارہویں جماعتوں کے لئے امتحانات کی ڈیٹ شیٹ جاری کرنے کے بارے میں لوگوں کا کہنا تھا کہ وادی میں امتحانات منعقد کرانے کا مقصد یہ باور کرانا ہے کہ یہاں سب کچھ نارمل ہے۔
وادی کی سڑکوں پر پبلک ٹرانسپورٹ کی عدم موجودگی کے باعث دور افتادہ علاقوں کے طلبا کو میلوں کی مسافت پیدل طے کرکے امتحانی سینٹروں تک پہنچنا پڑتا تھا بلکہ کئی طلبا امتحانات کے دوران امتحانی سینٹروں کے نزدیک رشتہ داروں یا دوستوں کے ہاں ہی ٹھہرے تھے اور کئی بچے کرایہ کے کمروں میں بیٹھنے پر مجبور ہوئے تھے۔
کشمیر یونیورسٹی کی طرف سے انڈر گریجویشن اور پوسٹ گریجویشن کرنے والے طلبا کی ڈگریاں تو پہلے ہی طوالت کا شکار ہورہی تھیں لیکن پانچ اگست کے بعد تمام اعلیٰ تعلیمی ادارے بشمول کشمیر یونیورسٹی میں تعلیمی سرگرمیاں مفقود ہونے سے جہاں طلبا کی پڑھائی متاثر پوئی وہیں امتحانات مقررہ وقت پر ایک بار پھر منعقد نہیں ہوسکے۔

ABOUT THE AUTHOR

...view details