اردو

urdu

13 July Martyrs’ Day مزار شہداء جانے والی سڑکوں پر سکیورٹی اہلکار تعینات

By

Published : Jul 13, 2023, 12:44 PM IST

Updated : Jul 13, 2023, 1:23 PM IST

سرینگر کے پائین شہر میں گذشتہ برسوں کے برعکس آج 13 جولائی 1931 کو 'یوم شہداء' کے موقعے پر بندشیں نافذ نہیں کی گئیں۔ وہاں زندگی معمول کے مطابق جاری رہی، تاہم مزار شہداء، خواجہ بازار کی طرف جانے والی سڑکوں پر سکیورٹی اہلکار تعینات تھے۔

a
a

سرینگر (جموں و کشمیر):13 جولائی 1931 کو جموں و کشمیر کے آخری مہاراجہ کے فوجیوں نے 22 نہتے اور معصوم کشمیریوں کو ہلاک کر دیا تھا جس کے بعد سے 13جولائی کو کشمیر میں ’’یوم شہداء‘‘ کے طور پر منایا جاتا ہے۔ 1947کے بعد بھی ہر سال - خواہ منتخب حکومت ہو یا گورنر راج - اس یوم شہداء کو حکومت و انتظامیہ کی جانب سے سرینگر کے مزار شہداء، خواجہ بازار - جہاں سبھی 22شہداء دفن ہیں - کی گلباری کی جاتی تھی جبکہ اس روز پورے جموں و کشمیر میں سرکاری تعطیل ہوا کرتی تھی۔

ڈوگرہ آمریت کے خلاف آواز بلند کرنے کی پاداش میں شہید کیے گئے 22کشمیریوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کی غرض سے 13جولائی کو ہر برس مین اسٹریم سیاسی جماعتوں، انتظامیہ، منتخب حکومت سمیت علیحدگی پسند تنظیموں کی جانب سے خراج عقیدت پیش کرنے کی غرض سے لیڈران اس روز مزار شہداء کا رخ کرتے تھے، اور امن و قانون کی صورتحال برقرار رکھنے اور علیحدگی پسند لیڈران کو مزار شہداء تک پہنچنے سے روکنے کی غرض سے گزشتہ کئی برسوں سے اس روز مزار شہداء سمیت گرد و نواحی علاقوں خاص کر ڈاؤن ٹاؤن میں بندشیں نافذ کی جاتی تھیں۔ تاہم امسال شہر سرینگر میں معمولات زندگی معمول پر رہی تاہم حکام کی جانب سے مزار شہداء کے دروازے بند کر دیے گئے۔ سنہ 2019میں دفعہ 370کی تنسیخ کے بعد سے نہ صرف سرکاری طور پر گلباری بند کر دی گئی بلکہ 13جولائی کو منائی جانے والی عام تعطیل بھی سرکاری کلینڈر سے غائب کر دی گئی بلکہ اس کے بر عکس مہاراجہ ہری سنگھ - جس کے دور حکومت میں 22کشمیریوں کو گولی مار کر شہید کر دیا گیا - کے یوم پیدائش 23ستمبر کو عام تعطیل کا اعلان کیا گیا۔

جموں و کشمیر حکومت، مین اسٹریم سیاسی جماعتیں اور علیحدگی پسند تنظیمیں اس روز مزار شہداء پر پہنچ کر وطن عزیز کی آزادی کے لیے جانیں قربان کرنے والوں کو خراج تحسین پیش کرتیں اور ان کے حق میں دعائیں بھی مانگتی۔ پچھلے سال کے برعکس، اس سال جموں و کشمیر عوامی ایکشن کمیٹی، جموں و کشمیر نیشنل کانفرنس، جموں و کشمیر پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی اور جموں و کشمیر اپنی پارٹی نے اب تک اس سلسلے میں اپنے بیان جاری کیے ہیں۔

جموں وکشمیر عوامی مجلس عمل نے 13 جولائی 1931 کے اولین شہداءکو انکے 92ویں سال شہادت پر شاندار الفاظ میں خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’1963 میں تنظیم اپنے قیام کے بعد سے ہی اور اس سے قبل مسلم کانفرنس اپنے دور میں مہاجر ملت میرواعظ مولانا محمد یوسف شاہ ؒ اور پھر شہید ملت میرواعظ مولوی محمد فاروق ؒ نے تادم شہادت اور موجودہ سربراہ تنظیم میرواعظ مولوی محمد عمر فاروق یوم شہداء کی تقریبات مناتے آرہے ہیں کیونکہ یہ دن جموں وکشمیر کی جدید تاریخ میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے جب اُس دن حکمرانوں نے راست فائرنگ کرکے سرینگر سینٹرل جیل کے سامنے22 نہتے کشمیریوں کو بے دردی سے شہید کردیا اس طرح یہ نہ صرف کشمیر کے اولین شہداء بن گئے بلکہ کشمیری عوام نے اپنے سیاسی اور معاشی حقوق کے حصول کیلئے باقاعدہ اپنی اجتماعی جد و جہد کا آغاز کیا اور تب سے لیکر آج تک کشمیری عوام اس مقصد کے حصول کیلئے برسر جدوجہد ہے۔‘‘

مزید پڑھیں:Kashmir Martyrs Day: یوم شہداء کشمیر 13 جولائی 1931 پر ایک نظر

بیان میں مزید کہا گیا کہ ’’بدقسمتی سے سربراہ تنظیم جناب میرواعظ مولوی محمد عمر فاروق صاحب جو اگست2019سے غیر اخلاقی اور غیر قانونی نظربندی کے سبب امسال بھی 13 جولائی کے تعلق سے عوامی جلسہ جلوس کی قیادت اور شہداء کے تئیں خراج عقیدت اور فاتحہ خوانی ادا نہیں کر سکے، تاہم عوام سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ 13 جولائی یوم شہداء کے موقع پر شہداء کے لئے ایصال ثواب اور فاتحہ خوانی کریں۔‘‘ بیان میں مجلس عمل نے ایک بار پھر میرواعظ کشمیر (جن کی اگلے ماہ چار سالہ نظر بندی مکمل ہونے جا رہی ہے) سمیت تمام سیاسی نظربندوں کی رہائی کا اپنا مطالبہ دہرایا ہے۔

ادھر، جموں و کشمیر نیشنل کانفرنس کے صدر اور سرینگر سے ممبر پارلیمنٹ ڈاکٹر فاروق عبداللہ اور نائب صدر عمر عبداللہ نے بھی 13 جولائی 1931 کے شہداء کو ان کی 92ویں یوم شہادت پر شاندار خراج عقیدت پیش کیا۔ ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے کہا: ’’عزت کی نہ ختم ہونے والی پیاس کو ناانصافی سے دبایا نہیں جا سکتا اور 13 جولائی کے شہداء نے ثابت کر دیا کہ عدم تشدد اور استقامت ہمیشہ ظلم اور استبداد پر غالب آتے ہیں۔ میں شہداء کو خراج عقیدت پیش کرتا ہوں اور عوام سے پر زور اپیل کرتا ہوں کہ ہمارے نوجوانوں کو جبر اور استبداد کے خلاف ہماری جدوجہد کی تاریخ کے بارے میں اچھی طرح سے آگاہ کیا جانا چاہئے۔‘‘

عمر عبداللہ نے زور دے کر کہا کہ ’’13 جولائی کے شہداء کی قربانیاں وقار اور انصاف کے لیے انسانیت کی جدوجہد کی ایک روشنی اور مثال بنی رہیں گی۔ میں اپنے ان عظیم شہداء کو خراج عقیدت پیش کرتا ہوں جنہوں نے استبداد کے خلاف جدوجہد کی راہ ہموار کرنے کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ یہ ان کی قربانی ہی تھی جس نے ہماری تاریخ کے ایک اہم موڑ کو واضح کیا اور لاکھوں مظلوم کشمیریوں کو ظلم کے خلاف متحد ہونے کی ترغیب دی۔‘‘

پی ڈی پی نے اپنے بیان میں کہا کہ: ’’13جولائی کے شہداء نے اپنے خون سے جموں و کشمیر کی تاریخ میں ایک نیا باب رقم کیا جس نے ہم سب میں وقار کی زندگی جینے کی تڑپ پیدا کی تاکہ جموں و کشمیر کے وقار اور جمہوریت کی بحالی کے لیے کوشش جاری رکھیں۔‘‘ دفعہ 370کی منسوخی کے خلاف سپریم کورٹ میں جاری سنوائی پر خاموش رہنے والے جموں و کشمیر اپنی پارٹی کے صدر اور سابق وزیر سید محمد الطاف بخاری بھی 13جولائی 1931کے موقع پر خاموش نہ رہے۔ الطاف بخاری نے بیان جاری کرتے ہوئے کہا: ’’13 جولائی 1931 کو اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والے بہادر شہداء کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے، ہم ان کی غیر متزلزل ہمت اور انصاف کے لیے عزم کو یاد کرتے ہیں، ان کی قربانی ہمیشہ ہمارے دلوں میں آزادی اور مساوات، کے اقدار کو برقرار رکھنے کی یاد دہانی کے طور پر نقش رہے گی۔‘‘

Last Updated : Jul 13, 2023, 1:23 PM IST

ABOUT THE AUTHOR

...view details