سرینگر (جموں و کشمیر):جہاں گزشتہ روز جموں و کشمیر پولیس کے (انچارج) ڈائریکٹر جنرل آر آر سویں نے دعویٰ کیا کہ ’’مرکزی زیر انتظام خطہ جموں و کشمیر میں عسکریت پسندی کے خلاف جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی ہے۔‘‘ وہیں گزشتہ ماہ لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا نے دعویٰ کیا تھا کہ ’’وادی کی صورتحال ماضی کے مقابلے میں کافی بہتر ہوئی ہے اور عسکرت پسندی اپنی آخری سانسیں لے رہی ہے۔‘‘ وہیں جموں و کشمیر پولیس کے اعداد و شمار پر نظر ڈالیں تو اس وقت خطے میں تقریبا 80 عسکریت پسند سرگرم ہیں جن میں سب سے زیادہ عسکریت پسند لشکر طیبہ کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں۔
پولیس کے اعداد و شمار کے مطابق وادی میں اس وقت لشکر طیبہ کے تقریباً 48، جیش محمد تنظیم کے 19، حزب المجاہدین کے 12 اور البدر کے دو عسکریت پسند سرگرم ہیں۔ سرگرم عسکریت پسندوں میں سے نصف سے زیادہ غیر ملکی ہیں اور ان میں سے بیشتر جنوبی کشمیر کے اننت ناگ، پلوامہ، شوپیاں اور کولگام اضلاع میں مقیم ہیں۔ وہیں شمالی کشمیر کے ضلع بانڈی پورہ، بارہمولہ اور کپوارہ میں تقریباً 16 عسکریت پسند سرگرم ہیں، اسی طرح وسطی کشمیر کے سری نگر، بڈگام اور گاندربل اضلع میں تقریبا 10 عسکرپسند سرگرم ہیں۔
قابل ذکر ہے کہ سنہ 2000 سے لے کر اب تک جموں و کشمیر میں 11959 عسکری کارروائیوں کے دوران کل 22232 افراد جن میں 4921 عام شہری، 3584 سکیورٹی فورسز کے اہلکار، 13307 عسکری پسند اور 420 غیر شناخت شدہ افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ جہاں رواں برس کل ہلاکتوں کی تعداد میں کمی آئی ہے لیکن غیر شناخت شدہ افراد کی ہلاکتیں سنہ 2006 کے بعد دوبارہ دیکھنے کو ملی۔ سنہ 2006 میں 90، 2005 میں 56، 2004 میں 72، 2003 میں 121، 2002 میں 56، 2001 میں 14 اور 2000 میں 9 غیر شناخت شدہ افراد ہلاک ہوئے تھے۔ سنہ 2006 سے سنہ 2022 کے آخر تک ایسی کوئی بھی ہلاکت خطے میں پیش نہیں اائی تھی۔ اس حوالے سے جموں و کشمیر پولیس کے ایک سینئر افسر نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ ’’رواں برس دو در اندازوں کو ہلاک کیا گیا تھا جن میں ایک خاتون بھی شامل ہے۔ ان دونوں در اندازوں کی ابھی تک نہ تو شناخت ہو پائی ہے اور نہ ہی خطے کے کسی بھی علاقے سے گمشدگی کے بارے میں موصول ہوئی اطلاعات /شکایات میں سے ان کے ساتھ کوئی ملتی جلتی ہے۔‘‘