اب تک 125 عسکریت پسندوں کو مقامی قبرستانوں سے دور سپرد لحد کیا گیا - jammu kashmir police
رواں برس اکتوبر مہینے تک وادیٔ کشمیر میں مختلف مسلح تصادم آرائیوں کے دوران مجموعی طور پر 171 عسکریت پسند ہلاک کئے گئے ہیں جن میں سے اب تک 125 عسکریت پسندوں کو اپنے آبائی علاقے کے قبرستان سے دور دفنایا جا چکا ہے۔
وادیٔ کشمیر میں مختلف عسکریت مخالف کارروائیوں کے دوران مارے گئے اب تک قریب 125 عسکریت پسندوں کو اپنے مقامی قبرستانوں سے دور سپرد لحد کیا گیا ہے۔
رواں برس اپریل کے مہینے سے ہلاک کئے گئے عسکریت پسندوں کو اپنے مقامی علاقوں کے قبرستانوں سے دور شمالی کشمیر کے دوردراز علاقہ میں ایک مخصوص قبرستان میں دفنایا گیا ہے۔
عسکریت پسندوں کو اپنے مقامی علاقہ سے دور دفن کرنے کا یہ فیصلہ انتظامیہ کی جانب سے رواں برس کے اپریل مہینے سے لیا گیا تاکہ عسکریت پسندوں کے جنازے میں لوگوں اور خاص کر نوجوانوں کی شرکت کو روکا جاسکے اور ہجوم اور فورسز کے مابین پتھر بازی کے پیش آنے والے واقعات پر قابو پایا جاسکے۔ ادھر امن وامان کی صورتحال کو برقرار رکھنے کے لیے بھی انتظامیہ اور سیکورٹی ایجنسیوں نے اس طرح کا فیصلہ لیا ہے۔
رواں برس اکتوبر مہینے تک وادی کشمیر میں مختلف مسلح تصادم آرائیوں کے دوران مجموعی طور پر 171 عسکریت پسند ہلاک کئے گئے ہیں جن میں سے اب تک 125 عسکریت پسندوں کو اپنے آبائی علاقے کے قبرستان سے دور دفنایا جا چکا ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق ہلاک کئے جارہے عسکریت پسندوں کی لاشوں کو لواحقین یا اہل خانہ کے سپرد نہ کئے جانے کے فیصلے سے نوجوانوں کو کافی حد تک عسکری صفوں میں شامل ہونے سے روکا گیا۔
عسکریت پسندوں کو اپنے مقامی علاقوں سے دور دفن کیے جانے کے فیصلہ کے حوالے سے انتظامیہ اور سیکورٹی ایجنسیوں کی جانب سے کہا جارہا ہے کہ عسکریت پسندوں کے جنازے میں نوجوانوں کی بھیڑ اُمڈ آتی تھی۔ وہیں جنازے کے بڑے اجتماع کی وجہ سے نوجوانوں کے جذبات ابھرتے تھے اور پھر نوجوان عسکریت پسندوں کی صفوں میں شامل ہوجاتے تھے جو کہ سیکورٹی ایجنسیوں کے لئے ایک بڑا چلینج بن جاتا تھا۔
سیکورٹی فورسز کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے کہا کہ اب ہلاک کیے جارہے عسکریت پسندوں کی تدفین کا کام مجسڑیٹ کی نگرانی اور اہل خانہ کی موجودگی میں تمام مذہبی رسومات کے ساتھ انجام دیا جارہا ہے جبکہ ثبوت کے طور پر ڈی این اے کے نمونہ بھی رکھے جارہے ہیں۔
سیکورٹی افسر کے مطابق اپریل سے اٹھائے گئے اس طرح کے اقدام سے نوجوانوں کے عسکریت پسندوں کے صفوں میں شامل ہونے سے کافی حد تک روک لگائی گئی جبکہ فوج اور سیکورٹی فورسز کے خلاف عوامی مزاحمت کے واقعات کو بھی کم کیا گیا۔ دوسری طرف شدت پسندی کے زیر اثر علاقوں میں بھی مثبت تبدیلی اب دیکھنے کو مل رہی ہے۔