جنوبی کشمیر کے ضلع شوپیان میں 18 جولائی کو مبینہ تصادم میں مارے گئے نوجوان ابرار احمد کے والد نے آج کہا کہ 'میرے پورے خاندان نے ملک کی خدمت کی ہے اور آج میں ہی مجبور اور لاچار ہوں۔'
انہوں نے کہا میرے بھائی فوجی تھے اور اب سبکدوش ہیں۔ میرے بیٹے کو عسکریت پسند قرار دینا بے بنیاد ہے اور یہ بات میں ہرگز تسلیم نہیں کرسکتا۔
ابرار کے والد محمد یوسف نے ای ٹی وی بھارت سے خصوصی بات کرتے ہوئے کہا 'میرے بیٹے کو مارا گیا ہے جو گھر سے مزدوری کرنے کے لئے شوپیان گیا تھا۔ چار برس بیرون ملک میں مزدوری کے بعد گھر لوٹا اور شادی کی۔ اور اس کا 15 ماہ کا بیٹا ہے۔
شوپیان انکاؤنٹر: 'ملک کی خدمت کر کے آج ہم ہی مجبور و لاچار ہیں' انہوں نے کہا 17 جولائی کو شام کو اس سے آخری بار بات ہوئی اس کے بعد اس کا فون بند تھا۔
یہ بھی پڑھیں: کیا شوپیان انکاؤنٹر فرضی تھا؟
انہوں نے مزید کہا ملک کی خدمت کرنے کے باوجواد آج انہیں اپنے بیٹے کی لاش کےلئے در بدر گھومنا پڑ رہا ہے۔
محمد یوسف نے کہا 'میرے بیٹے کے مبینہ قتل کی تحقیقات کی جائے اس کے فون کی تفصیلات نکالی جائے اور مجھے انصاف دیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ میرے بیٹے کو مار کر اس کو عسکریت پسند قرار دیا گیا اس بات کو کبھی تسلیم نہیں کرے گے۔ آج میں شوپیاں جانے کی اجازت مانگ رہا ہوں وہ بھی نہیں دی جارہی ہے۔'
یہ بھی پڑھیں:شوپیان انکاؤنٹر: نوجوانوں کے والدین نے پولیس سے ملاقات کی
قابل ذکر ہے کہ شوپیاں کے مضافاتی گاؤں چک آمشی پورہ میں فوج نے رواں سال کی 18 تاریخ کو یہ دعویٰ کیا تھا کہ فوج کی 62 راشٹریہ رائفلز نے شوپیاں ضلع صدر مقام سے تقریباً 11 کلو میٹر دور آمشی پورہ نامی گاؤں میں عسکریت پسندوں کی موجود گی کی اطلاع ملنے کے بعد فوج نے جمعہ اور سنیچر کی درمیانی رات قریب 2 بجے علاقے میں ایک میوہ باغ کو محاصرے میں لیا جسکے بعد تلاشی کاروائیوں کا آغاز کیا اور مقامی میوہ باغ میں ایک پختہ شیڈ کا گھیرا تنگ کیا گیا جہاں پر چھپے بیٹھے عسکریت پسندوں نے فوج پر فائرنگ کی جسکے بعد فورسز اہلکاروں نے جوابی کارروائی کی اور انکاؤنٹر شروع ہوا جو کچھ گھنٹوں کے بعد اختتام کو پہنچا۔
اس دوران فوج نے میڈیا کو بتایا کہ اس انکاؤنٹر میں تین عدم شناخت عسکریت پسند ہلاک کئے گئے جبکہ دو اندھرے کا فائدہ اٹھاکر فرار ہونے میں کامیاب رہے۔ تاہم پولیس کی طرف سے اس انکاؤنٹر کے بارے میں کوئی پریس ریلیز جاری نہیں کیا گیا۔ ادھر فوج کی جانب سے بھی ایک اور پریس ریلیز جاری کیا گیا جس میں فوج نے بتایا کہ ہم نے سماجی رابطہ کی ویب سائٹ پر راجوری کے تین مزدوروں کے لاپتہ ہونے کی خبریں اور ان کی اس تصادم کے ساتھ وابستگی کی خبریں پڑھی ہیں اور فوج اس تعلق سے تحقیقات کر رہی ہے۔
واضح رہے نئی پالیسی کے تحت پولیس عسکریت پسندوں کی لاش کی شناخت نہیں کرتی ہے اور کووڈ 19 کی وجہ سے لاش کنبہ کے افراد کو نہیں دی جاتی ہے اور انہیں نامعلوم اور دور دارز علاقوں میں دفن کیا جاتا ہے۔