اردو

urdu

ETV Bharat / state

(75YEARS OF INDEPENDENCE): گوالیار کا خزانہ رانی لکشمی بائی کو سونپنے والے امرچندر بانٹھیا

راجستھان(Rajasthan ) کے بیکانیر میں سنہ 1793 کو پیدا ہوئے امر چندر بانٹھیا(Amar Chandra Banthia ) بچپن سے ہی ملک کی آن بان اور شان کے لیے کچھ کرنا چاہتے تھے۔ امر چندر(Amar Chandra Banthia ) کو اقتصادی امور پر مہارت حاصل تھی۔ ان کی اس قابلیت نے بیکانیر کے حکمرانوں کی توجہ مبذول کرائی اور جیا جی راؤ سندھیا نے انہیں شاہی ریاست کا خزانچی مقرر کیا تھا۔ انگریزوں نے انہیں گوالیار(Gwalior ) کا خزانہ جھانسی کی رانی لکشمی بائی( Rani Laxmibai) کے حوالے کرنے پر پھانسی دے دی تھی۔

امرچندر بانٹھیا

By

Published : Nov 20, 2021, 6:08 AM IST

سنہ 1857 کا وہ دور جب برطانوی حکومت( British government ) کے خلاف پورے ملک میں غصہ اور نفرت کی آگ تیزی سے پھیل رہی تھی، ہتھیار اور جنگ سے بھارت کی سرزمین کو انگریزوں کی غلامی سے پاک بنانے کی کوشش کی جارہی تھی۔ لیکن ان سب کے درمیان ایک شخص نے انگریزوں کے خلاف جنگ لڑنے کے لیے ہتھیار کا سہارا نہیں لینے کا فیصلہ کیا اور صحیح وقت آنے پر آزادی کی جدوجہد میں ایک اہم رول ادا کیا۔ یہ عظیم مجاہد آزادی امر چند بانٹھیا (Amar Chandra Banthia) تھے، جو گوالیار کے سندھیا شاہی گھرانہ کے خزانچی بھی تھے۔

راجستھان کے بیکانیر میں سنہ 1793 کو پیدا ہوئے امر چندر بانٹھیا بچپن سے ہی ملک کی آن بان اور شان کے لیے کچھ کرنا چاہتے تھے۔ ان کے والد کا بیکانیر میں خاندانی کاروبار تھا۔ لیکن کاروبار میں ہوئے مالی نقصان کی وجہ سے ان کے والد کو پورے خاندان کے ساتھ گوالیار کی جانب رخ کرنا پڑا۔

اس وقت کے گوالیار کے مہاراجہ نے ان کو پناہ دی اور مہاراجہ کے مشورہ پر ہی انہوں نے ریاست میں اپنا کاروبار دوبارہ شروع کیا۔ یہاں ان کی محنت رنگ لائی اور جلد ہی پورے گوالیار میں بانٹھیا خاندان کی ایمانداری کے چرچے ہونے لگے۔

گوالیار کا خزانہ رانی لکشمی بائی کو سونپنے والے امرچندر بانٹھیا

امر چندر کو اقتصادی امور پر مہارت حاصل تھی۔ ان کی اس قابلیت نے بیکانیر کے حکمرانوں کی توجہ مبذول کرائی اور جیا جی راؤ سندھیا نے انہیں شاہی ریاست کا خزانچی مقرر کیا۔ خزانچی کا عہدہ سنبھالنا ایک بہت بڑی ذمہ داری تھی کیونکہ بیکانیر کا خزانہ کسی خفیہ راز سے کم نہیں تھا، جس کے بارے میں محض چند اہلکاروں کے پاس ہی جانکاری تھیں۔

بہرحال، امر چندر کی زندگی میں ایک نیا موڑ آنے والا تھا، جلد ہی امر چندر کی ملک کے لیے کچھ کر گزرنے کی خواہش پوری ہونے والی تھی۔ لیکن یہ کرنے کے لیے انہیں صحیح وقت کا انتظار تھا۔

بالآخر وہ وقت بھی آیا، جب سنہ 1857 کو جھانسی کی رانی لکشمی بائی نے برطانوی افواج کو للکارنے کا فیصلہ کیا۔ رانی لکشمی بائی نے برطانوی حکمراں کی اتحادی ریاستوں پر حملہ شروع کردیا اور جلد ہی انہوں نے گوالیار پر بھی قبضہ کرلیا۔ لیکن جنگ کے میدان میں ہمت اور طاقت کے علاوہ پیسوں کی بھی ضرورت ہوتی ہے، رانی لکشمی بائی کی فوج کو فنڈز کی قلت کا سامنا تھا اور ان کے سپاہیوں کو مہینوں سے تنخواہیں بھی نہیں مل رہی تھیں۔ اس کے علاوہ کھانے اور پینے کی اشیاء بھی ختم ہونے لگی تھی۔

اس صورت حال کو دیکھ کر امر چندر سمجھ گئے کہ بچپن کی خواہش پوری کرنے کا یہ صحیح وقت ہے۔ وہ اس بات پر پرعزم تھے کہ وہ آزادی کی اس جنگ کو محض فنڈز کی کمی کی وجہ سے مرنے نہیں دیں گے اور انہوں نے گوالیار کے گنگاجلی کا پورا خزانہ رانی لکشمی بائی کے حوالے کردیا۔

انہوں نے خزانہ کی چابی رانی لکشمی بائی کو دے کر جنگ آزادی میں اپنا کردار تو ادا کردیا لیکن وہ اس بات سے بھی بخوبی واقف تھے کہ ان کا یہ قدم ان کی زندگی کے لیے خطرہ بنے گا۔ ان کا یہ اندیشہ صحیح ثابت ہوا اور انگریزوں نے فیصلہ کیا کہ امر چندر کو اپنے کیے کی قیمت جان دے کر ادا کرنی پڑے گی۔

رانی لکشمی بائی کی شہادت کے چار دن بعد امر چندر پر بغاوت کا مقدمہ چلایا گیا اور انہیں موت کی سزا سنائی گئی۔ انہیں صرافہ بازار میں درخت سے لٹکا کر پھانسی دے دی گئی۔ انگریزوں نے لوگوں کے دلوں میں خوف پیدا کرنے کے لیے ان کی لاش کو تین دن تک لٹکائے رکھا۔

آج بھی گوالیار کے بلین مارکیٹ میں اسی درخت کے نیچے امر چندر بانٹھیا کا مجسمہ نصب ہے۔ وہاں سے گزرنے ہر راہ گیر کو ان کی قربانی کو یاد دلاتا ہے۔

ABOUT THE AUTHOR

...view details