اسی کے ساتھ ہی عدالت نے اس تعلق سے سپریم کور کی جانب سے دیی گئی ہدایت کو بھی فالو کرنے کا حکم دیا ہے۔ جسٹس اندرجیت مہانتی اور جسٹس ستیش کمار کی بینچ نے یہ حکم شالنی شیوران کی جانب سے دائر عرضی کی سماعت کرتے ہوئے دیا۔
عرضی میں کہا گیا کہ خواجہ سرا کو الگ سے سرٹیفیکیٹ نہیں دیا جاتا۔ اس کی غیر موجودگی میں انہیں طبی سہولت سمیت دیگر سرکاری فلاحی منصوبوں سے دور نہیں رکھا جا سکتا۔ عرضی پر جواب دینے کے لیے عدالت نے ریاستی حکومت کو ایک ماہ کا وقت دیتے ہوئے شناختی کارڈ کی غیر موجودگی میں خواجہ سرا کے ساتھ فلاحی منصوبوں میں امتیازی سلوک نہیں کرنے کی بات کہی۔
عرضی میں کہا گیا ہے کہ سنہ 2018 میں خواجہ سرا کی تعداد ریاست میں تقریبا 75 ہو گئی ہے۔ ریاست نے ان کے فلاح کے لیے خواجہ سرا (پروٹیکشن آف رائٹس) ایکٹ 2019 بنایا ہے۔
قانون کے مطابق خواجہ سرا کو اپنے خاندان سے الگ نہیں کیا جائے گا۔ ان کے لیے الگ سے بیت الخلاء بنائے جائیں گے۔ غرضی میں کہا گیا کہ سپریم کورٹ نے 15 اپریل 2014 کے حکم جاری کیا تھا کہ انہیں سماجی اور تعلیمی طور سے پسماندہ مانتے ہوئے رزرویشن سمیت دیگر فراہمی چھہ ماہ کے اندر لاگو کرنے کو کہا تھا۔
اس کے باوجود انہیں آج تک لاگو نہیں کیا گیا۔ وہیں قانون بنانے کے بعد اس کے فراہمی کو نافظ کرنے کے تعلق سے قانون نہیں بنائے۔