جے پور: کانگریس کے سابق صدر راہل گاندھی نے بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اور راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) پر نفرت، تشدد اور خوف کی سیاست کرنے کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ کانگریس اس کے خلاف کھڑا ہونا اور بھارت کو جوڑنا چاہتی ہے۔ کنیا کماری سے کشمیر تک بھارت جوڑو یاترا نکالنے والے راہل گاندھی یاترا کے 100 دن مکمل ہونے پر منعقدہ ایک پریس کانفرنس سے خطاب کیا۔ بھارت جوڑو یاترا کے تین مقاصد بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہم بھارت کو متحد کرنا چاہتے ہیں، ہم نفرت، تشدد اور خوف کی سیاست کے خلاف کھڑے ہونا چاہتے ہیں جو بی جے پی اور آر ایس ایس کے ذریعے چلائی جا رہی ہے۔ یہ پیغام ملک میں بہت اچھا گیا ہے۔ اس پیغام کا بہت اچھا استقبال ہوا ہے۔ یہ سیاست کرنے کا ایک اور طریقہ ہے، کانگریس کا طریقہ، گاندھی جی کا طریقہ ہے۔ Bharat Jodo Yatra 100 Days Complete
ایک اور سوال پر انہوں نے اپنے بارے میں کہا کہ یہ شخص اس لیے گھوم رہا ہے کیونکہ بی جے پی نے اس ملک میں خوف اور نفرت پھیلا رکھی ہے اور یہ شخص اس لیے گھوم رہا ہے کہ وہ خوف اور نفرت کو ختم کرنا چاہتا ہے اور یہ شخص، یہ پہلا شخص نہیں ہے جو گھوم رہا ہے۔ ایسے بہت سے لوگ گھوم چکے ہیں اور یہ ہندوستان کی تاریخ ہے۔ یہ نفرت اور خوف سے لڑنے کی تاریخ ہے، اور میں پہلا نہیں ہوں اور نہ آخری ہوں گا، اور یہ میری یاترا نہیں ہے، یہ ہندوستان کے لوگوں کی یاترا ہے۔ یہ کانگریس پارٹی کے نظریے کی یاترا ہے اور یہ ہندوستان کو متحد کرنے کی یاترا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اب بھارت جوڑو یاترا کے 100 دن ہو چکے ہیں۔ کنیا کماری سے، اب ہم راجستھان سے نکل رہے ہیں، یہ بہت اچھا تجربہ رہا ہے۔ جب یہ شروع ہوئی تو ہمارے پریس کے دوستوں نے کہا تھا کہ دیکھو یہ ساؤتھ میں کامیاب ہو گی لیکن جب یہ ساؤتھ سے نکلے گی تو کامیاب نہیں ہو گی۔ پھر مہاراشٹر میں کہا کہ ہاں مہاراشٹر میں کامیاب ہوگئی، لیکن ہندی بیلٹ میں کامیاب نہیں ہوگی اور پھر جب ہم ہندی بیلٹ میں آئے تو کہا کہ اچھا مدھیہ پردیش کامیاب ہوگئی، لیکن اب راجستھان میں فیکشنلزم ہے، کامیابی نہیں ہوگی۔ لیکن وہاں بہت سے لوگ راجستھان آئے، لاکھوں لوگ آئے، ہماری تنظیم نے بہت اچھا اثر انگیز کام کیا اور شاید اس یاترا کا سب سے اچھا استقبال راجستھان میں ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جو بے روزگاری بڑھتی جارہی ہے، اس کے خلاف مہنگائی اور انکم ان اکولٹی ہورہی ہے، جو منتخب لوگوں کو بہت فائدہ ہو رہا ہے اور ہمارے کسان، مزدور، چھوٹے دکاندار، نوجوان، ان کا نقصان ہو رہا ہے۔ تو وہ ہمارے یہ تین مدعے تھے۔
ایک سوال کے جواب میں گاندھی نے کہا ’’میری رائے ہے کہ میں نے جو کچھ دیکھا ہے اور یہ صرف راجستھان کے بارے میں نہیں ہے، یہ باقی ریاستوں کے بارے میں بھی ہے کہ کانگریس پارٹی کا بنیادی معاملہ ہمارا جو اعام کارکن، جو سڑک پر لڑتا ہے، جو چھوٹے لیڈر ہیں، اس کو ہمیں جگہ دینی ہوگی اور ہمیں اس کی بات سننی ہوگی۔ یہ بنیادی مسئلہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا جو اسٹرکچر ہے، اس میں کوئی بھرم نہیں ہے اور دوسری بات یہ کہ ہماری پارٹی آمریت کی پارٹی نہیں، یہ فاشسٹ پارٹی نہیں ہے۔ ہمیں اپنی پارٹی میں تھوڑی سی بحث پسند ہے، ہمارے لیے کوئی مسئلہ نہیں۔ اگر مختلف نظریات ہیں تو کوئی حرج نہیں ہے اور یہ صرف راجستھان کی بات نہیں ہے، ہماری ہر ریاست میں ایک ہی ہے، مرکز میں بھی یہی ہے۔ تو ہم اس چیز کو برداشت کرتے ہیں۔ زیادہ نقصان نہیں ہونا چاہیے۔ اگر زیادہ نقصان ہوتا ہے تو ہم بھی ایکشن لیتے ہیں۔ لیکن عام طور پر کانگریس پارٹی کا یہی نظریہ ہے، اگر ہماری پارٹی کے لوگ کچھ بولنا چاہتے ہیں تو ہم انہیں ڈرا دھمکا کر خاموش نہیں کراتے اور اگر پریس والے بولنا چاہے تو ہم انہیں بالکل نہیں ڈراتے، یہ آپ جانتے ہیں۔