جے پور: بین الاقوامی ٹرانس جینڈر ڈے آف ویزیبلٹی ہر سال 31 مارچ کو پوری دنیا میں منایا جاتا ہے۔ اس دن خواجہ سراؤں کے ساتھ امتیازی سلوک کو ختم کرنے کے لیے بیداری پیدا کی جاتی ہے اور ساتھ ہی معاشرے میں ان کے تعاون کو بھی بتایا جاتا ہے۔ ایک طویل جدوجہد کے بعد خواجہ سراؤں کے حوالے سے معاشرے کی سوچ میں تبدیلی آ رہی ہے۔ سپریم کورٹ نے بھی مساوات کا حق دینے کی ہدایات دی ہیں، لیکن کیا راجستھان میں ان خواجہ سراؤں کو وہ حقوق مل رہے ہیں جو انہیں ملنے چاہیے؟ اس سے متعلق نمائندہ ای ٹی وی بھارت نے جے پور کنر اکھاڑہ کے مہامنڈلیشور پشپا مائی سے خصوصی بات چیت کی۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کے حکم سے کچھ راحت ملی ہے، لیکن جب تک مرکزی اور ریاستی حکومتیں قانونی حقوق نہیں دیتیں، تب تک برابری کی بات نہیں کی جاسکتی۔
ٹرانسجینڈر کو ہمیشہ حقارت کی نگاہ سے دیکھا گیا ہے۔ معاشرے میں اس طبقے کے حوالے سے نا ہی زبان پر کوئی کنٹرول ہوتا ہے اور نہ ہی معاشرہ اپنے ساتھ انہیں جوڑتا ہے۔ لیکن جوں جوں وقت بدلا، شعور میں اضافہ ہوا اور قواعد بھی طے ہوئے۔ حقوق کی جنگ سپریم کورٹ تک لڑی گئی۔ تب نام کی عزت ملی اور معاشرے میں اپنا کردار ادا کرنے کا موقع بھی ملا۔ تاہم معاشرے میں قبولیت اور قانونی حقوق کی جدوجہد ابھی تک جاری ہے۔ اس معاشرے میں قبولیت کے لیے، ہر سال 31 مارچ کو دنیا بھر میں 'بین الاقوامی ٹرانس جینڈر ڈے آف ویزیبلٹی' (TDOV) منانے کی شروعات کی گئی۔
جے پور کنر اکھاڑہ کے مہامنڈلیشور پشپا مائی کا کہنا ہے کہ یہ سچ ہے کہ آزادی کے 75 سال سے زیادہ گزرنے کے بعد بھی خواجہ سراؤں کو حقارت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ اس کمیونٹی سے آشرواد تو چاہیے لیکن انہیں اس معاشرے میں برابری کا حق نہیں دیں گے۔ 6 سال قبل سپریم کورٹ نے خواجہ سراؤں کو معاشرے کے مرکزی دھارے سے جوڑنے کے لیے انہیں برابری کا حق دیا تھا لیکن آج بھی خواجہ سراؤں کو نہ تو کرائے پر مکان ملتا ہے اور نہ ہی کوئی نوکری دیتا ہے۔ آج بھی انہیں معاشرے کی کسی کالونی میں قبول نہیں کیا جاتا۔ یہی نہیں، اگر کوئی خواجہ سرا بس اسٹاپ پر بیٹھا ہو تو دوسرے لوگ اسے حقارت کی نظروں سے دیکھتے ہیں۔