بھارت کی آزادی کے 75 سال کے جشن کے موقع پر ای ٹی وی بھارت پورے ملک سے بھارت کی آزاد کی جدوجہد کی کہانیاں کو ملک کے کونے کونے سے اکٹھا کر اسے دنیا کے سامنے پیش کر رہا ہے۔ اس ہفتہ ہم راجستھان کے اس بارہٹھ خاندان کی کہانی کو پیش کر رہے ہیں، جنہوں نے بھارت کے نقشے سے برطانوی حکمرانوں کے پرچم کو ہٹانے کے لیے انقلاب کا راستہ اختیار کیا۔
یہ کہانی ہے ایک باپ، ایک بیٹے اور بھائی کی، جنہوں نے راجستھان اور مدھیہ پردیش کے کچھ حصوں میں لوک گیتوں اور اپنے جنون سے انقلاب کا بیج بویا۔ اس پورے خاندان نے اپنی زندگی بھارت اور بھارت کے عوام کی آزادی کے لیے وقف کردی۔شاعر کیسری سنگھ بارہٹھ اور ان کے خاندان کی قربانی کی داستان آج بھی ہر راجستھانی کے دل میں گونجتی ہے۔ لیکن ان مشہور اور دلیر شخصیات کا وجود صرف راجستھان کی سرحدوں تک محدود ہے۔
اس خاندان میں سے ایک کیسری سنگھ بارہٹھ کے بیٹے پرتاپ سنگھ بارہٹھ 25 سال کی عمر میں شہید ہوگئے۔ بھارت کے عظیم مجاہدین آزادی بھگت سنگھ، سکھ دیپ تھاپر اور شورام راج گرو جیسے مشہور انقلابیوں کو پھانسی دینے سے 13 سال قبل انہوں نے اپنی زندگی بھارت کی آزادی کے نام وقف کردی تھی۔
جہاں بھگت سنگھ اور ان کے دوستوں کو سنہ 1931 میں پھانسی دی گئی تھی، وہیں سنہ 1918 میں لارڈ ہارڈنگ کے جلوس پر بم پھینکنے کے جرم میں پرتاپ سنگھ کی جیل میں موت واقع ہوگئی۔ اس واقعہ کو بھارتی تاریخ کے صفحات میں دہلی کانسپریسی کیس کے طور پر نشان زد کیا گیا ہے۔ اتنا ہی نہیں یہ وہ پہلا واقعہ بھی ہے، جس کے بعد انگریزوں نے بھارت چھوڑنے کا دباؤ محسوس کیا تھا۔
کیسری سنگھ بارہٹھ کون تھے؟
کیسری سنگھ بارہٹھ کی پیدائش 21 نومبر 1872 کو شاہ پورا کے ایک امیر خاندان میں ہوئی، وہ ایک شاعر اور اسکالر تھے۔ طاقت، عقیدت اور قربانی کے جذبے سے سرشار شاہ پورا کی مٹی میں کھیلتے ہوئے انہوں نے اپنا بچپن گزارا تھا۔ راجستھان کے بھلواڑاہ ضلع کے شاہ پورا علاقے کے دیو کھیڑا کے وہ جاگیردار تھے۔
ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے شہید پرتاپ سنگھ بارہٹھ سنتستھان کے سیکریٹری کیلاش سنگھ جاداوت نے راش بہاری بوس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ کیسری سنگھ بارہٹھ کے علاوہ ملک میں شاید ہی کوئی ایسا خاندان ہو جس نے اپنے بیٹے کو انقلاب کی راہ قبول کرنے کی ترغیب دی ہو۔
انہوں نے مزید کہا کہ 'نہ صرف ان کے بیٹے پرتاپ سنگھ بلکہ ان کے بھائی زوراور سنگھ نے بھی انقلاب کا پرچم اٹھایا اور ملک کے لیے اپنی جان قربان کیں۔
کیسری سنگھ اپنی تحریر اور تصنیف سے اکثر برطانوی حکمرانوں کو چیلنج کرتے تھے۔ خاص طور سےکیسری سنگھ کے ذریعہ لکھی گئی سورٹھ 'چیتاونی را چُنگٹیا' کو سن کر برطانوی حکمران حیران و پریشان ہوگئے تھے۔ یہ سورٹھ گا کر کیسری سنگھ نے انقلاب کا اعلان کردیا تھا۔
وطن کی آزادی اور حب الوطنی کو اپنی تحریروں میں جگہ دینے کے سبب انگریزوں نے کیسری سنگھ کو ہمیشہ کے لیے ہٹ لسٹ کردیا اور ان پر ایک مخبر مقرر کردیا۔ لیکن کوئی بھی چیز انہیں، ان کے بیٹے اور ان کے بھائی کو اپنی منزل حاصل کرنے سے روک نہیں پائی۔ بعد میں کیسری کو مہنت پیارے لال کے قتل کے الزام میں گرفتار کرلیا گیا اور انہیں بہار کے ہزاری باغ میں 20 سال کے لیے جیل بھیج دیا گیا۔ ان کا انتقال 14 اگست 1941 کو ہوا۔