پلوامہ:آج کے دور جدید میں گیہوں، چاول سمیت دیگر غذائی اجناس کو پیسنے کے لیے عام طور پر بجلی یا ڈیزل سے چلنے والی مشینوں کا استعمال کیا جاتا ہے۔ تاہم اس کے باوجود وادی کشمیر کے مختلف علاقوں میں آج کے دور میں بھی پن چکیاں قائم ہیں۔ Watermills in Kashmir ضلع پلوامہ کے ترچھل، دربگام، مورن سمیت متعدد علاقوں میں آج بھی پن چکیاں موجود ہیں، تاہم پن چکیوں کے مالکان کا کہنا ہے کہ مشینری کے بڑھتے استعمال، سکڑتے آبی ذخائر اور حکومت کی عدم توجہی کے باعث پن چکیاں بند ہونے کے درپے ہیں۔
پن چکی مالکان نے ای ٹی وی بھارت کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا کہ سائنسی دور میں جہاں جہاں تیز رفتار سے چلنے والی چکیاں یا فلور ملز کا رواج روز افزوں بڑھتا جا رہا ہے وہیں متعدد افراد پن چکیوں پر ہی گیہوں وغیرہ پیسنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ Watermills on Verge of Extinction
ضلع پلوامہ سے تعلق رکھنے والے ایک پن چکی کے مالک نے کہا کہ وہ پشتوں سے ہی پن چکی سے اپنا روزگار کما رہے ہیں تاہم مہنگائی کے اس دور اور پن چکی سے ہونے والی محدود آمدنی سے بمشکل انکا گزارا ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا انتظامیہ کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ انتظامیہ کی جانب سے صدیوں پرانی اس روایت کو برقرار رکھنے کے لیے اقدامات نہیں اٹھا رہی ہے۔ Watermills in Kashmir on Verge of Extinction
انہوں نے ای ٹی وی بھارت کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا کہ ’’حکومت کی مدد سے چھوٹی بڑی پن چکیاں قائم کرنے سے نہ صرف بے روزگار نوجوانوں کو روزگار مہیا ہوگا بلکہ پن چکیوں کے نزدیک چھوٹے پاور ہاؤس قائم کرکے بجلی کے بحران پر بھی کسی حد تک قابو پایا جا سکتا ہے۔‘‘