ایک ایسے وقت میں جب کشمیری زبان کو دیگر سطح پر نظر انداز کیا جارہا ہے، وہیں جنوبی کشمیر کے ترال علاقے میں رہنے والے زاہد منظور نامی شخص اس زبان کو فروغ دینے کی کوشش میں سرگرم ہیں۔
زاہد نے اپنی مادری زبان کشمیری کو فروغ دینے کے لیے اپنی شاعری اسی زبان میں کرنے کی پہل کی ہے۔ جلد ہی ان کی شاعری کا مجموعہ منظر عام پر آئے گا۔
زاہد کی اس کوشش سے جہاں عام لوگ خوشی محسوس کر رہے ہیں، وہیں ماہرین اس کو ایک مثبت پہل قرار دے رہے ہیں۔
گترو ترال سے تعلق رکھنے والے زاہد منظور نے ای ٹی وی بھارت کے ساتھ بات کرتے ہوئے بتایا کہ کشمیری زبان کی ایک اپنی تاریخ ہے، جس کو فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ اس زبان کو زوال پذیر کرنے میں سماجی سطح پر ہر ایک ذمہ دار ہے، کیونکہ ہم اپنی مادری زبان کشمیری کو بولنے میں عار محسوس کرتے ہیں۔ اسی لیے میں نے اپنی مادری زبان کو فروغ دینے کی کوشش کی ہے تاکہ نئی پیڑھی کو ایک تحریک مل سکے۔
زاہد منظور کا کہنا ہے کہ وہ صوفی شعراء رجب حامد، نعمہ صاب، ندیم الطاف، رحیم صاب سوپوری سے متاثر ہیں۔ موصوف نے بتایا کہ سرکاری سطح پر آٹھویں جماعت تک کشمیری مضمون کو لاگو کرنے کا منصوبہ ایک اچھی پہل تھی لیکن زمینی سطح پر اس حوالے سے بہت ساری دقتیں ابھی بھی شعبہ تعلیم کو درپیش ہیں، کیونکہ بہت سارے اسکولوں میں کشمیری زبان کو پڑھانے والے اساتذہ ہی موجود نہیں ہیں۔
زاہد نے مزید کہا کہ کشمیری زبان کو فروغ دینے کے لیے ضروری ہے کہ گھریلو سطح پر کشمیری کو فروغ دیا جائے اور بچوں کے ساتھ کشمیری میں بات کی جائے۔
یہ بھی پڑھیں: جموں و کشمیر میں آیوشمان بھارت اسکیم وسیع پیمانے پر متعارف
زاہد منظور کے مطابق سوشل میڈیا کو بھی زبان کی ترویج اشاعت کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے جو کہ ایک بڑا پلیٹ فارم ہے تاکہ آپ کی شاعری پوری دنیا تک پہنچ سکے۔
انہوں نے نوجوانوں سے اپیل کی کہ کشمیری ہوتے ہوئے ہمیں اپنی زبان کو فروغ دینا چاہیے۔