فیروز احمد نامی نوجوان نے اب تک اسکائی مارشل آرٹ کو فروغ دینے کی مہم میں کئی ایوارڈ تو حاصل کیے، لیکن ان کی تشنگی ابھی برقرار ہے۔ وہ اسکائی مارشل آرٹ جس کا ذکر کشمیر کی مشہور تاریخ راج ترنگنی میں بھی ملتا ہے کو فروغ دینا چاہتے ہیں۔ وہ موجودہ دور میں اس کھیل کے ذریعے نوجوانوں کو ڈپریشن اور منشیات سے دور کر مثبت سوچ کی طرف مائل کرنا چاہتے ہیں۔
فیروز فی الوقت سرکاری اور پرائیویٹ اسکولوں میں زیر تعلیم طلباء کی ایک بڑی تعداد کو مارشل آرٹ سکھا رہے ہیں۔ ان کے پاس تربیت حاصل کرنے والے طلباء بھی بڑے خوش رہتے ہیں۔
تربیت حاصل کرنے والے آصف لون نے ای ٹی وی بھارت کے ساتھ بات کرتے ہوئے بتایا کہ موجودہ دور میں اسکائی مارشل آرٹ بہت ہی ضروری ہے کیونکہ اس سے انسان کی صحت ٹھیک رہتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس جیسے عالمی وباء نے بھی اس کھیل کے کھلاڑیوں کو زیادہ متاثر نہیں کیا کیونکہ ان کا مدافعت کا نظام بہتر تھی اور ایسے کھیل سے انسان کو دنیاوی تعلیم میں بھی فائدہ مل رہا ہے۔
ایک دوسرے لڑکے ظہور احمد شیخ نے بتایا کہ وہ دو سال سے یہ ٹریننگ لے رہے ہیں۔ وہ اس کھیل سے سیلف ڈیفنس بھی سیکھ رہے ہیں اور موجودہ دور میں جبکہ نوجوان منشیات میں مبتلا ہو رہے ہیں، اس کھیل سے وہ ان چیزوں سے دور رہ سکتے ہیں۔