گزشتہ سال آج ہی کے روز انتظامیہ نے ترال میں غیر قانونی تجاوزات کو ہٹانے کی مہم شروع کر کے بس اسٹینڈ کے نزدیک پچاس سے زائد دکانیں منہدم کی تھیں۔
متاثرہ دکانداروں سے وعدہ کیا گیا کہ دو ماہ کے اندر ان کی بازآبادکاری کے لیے انتظامات کیے جائیں گے۔ تاہم ایک برس مکمل ہو جانے کے باوجود دکانداروں کو دکان نہیں دی گئی۔ متاثرین آسمان تلے سودا بیچنے پر مجبور ہیں۔ آج متاثرہ دکانداروں نے خاموش احتجاج کر کے اپنی بات حکام تک پہنچانے کی کوشش کی۔
ای ٹی وی بھارت کے ساتھ بات کرتے ہوئے متاثرہ دکاندار عبدالجبار نے بتایا کہ 'گزشتہ سال جب انتظامیہ نے ان کی دکان منہدم کی تو انہوں نے تعاون کیا۔ لیکن اس کے بعد انتظامیہ انہیں بھول گئی اور اب صورتحال یہ ہے کہ وہ فاقہ کشی پر مجبور ہیں۔
ایک اور متاثرہ دکاندار گلزار احمد نے بتایا کہ 'گزشتہ برس چار مارچ کو انتظامیہ نے تقریبا 53 دکانیں منہدم کیں جس کی وجہ سے متاثرہ دکاندار اور ان کے اہل خانہ کو مشکل ہوئی۔
انھوں نے بتایا کہ دکانداروں نے بینکوں سے لون لیا ہے اور انتظامیہ اس حوالے سے بے خبر بنی ہوئی ہے۔ کئی سیاسی رہنماؤں نے اب باز آباد کاری کے معاملے پر اپنی سیاسی بساط بچھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔