انہی فنکاروں میں سے ایک مہاراشٹر کے شہر مالیگاؤں کے کیمپ علاقے سے تعلق رکھنے والے 52 برس کے وجے گووند خشتی ہیں جو ایک ماہر طبلہ نواز مانے جاتے ہیں۔ وجے گووند خشتی کی پیدائش ناسک شہر میں ہوئی۔ انہوں نے بنیادی تعلیم مراٹھی میڈیم اسکول سے حاصل کی بعد ازاں گریجویشن اور پوسٹ گریجویشن کی ڈگری ناسک کالج سے مکمل کی۔
وجے خشتی کو بچین سے ہی طبلہ بجانے کا شوق تھا اور ان کے والد نے انہیں طبلہ خرید کر دیا۔ پھر چوتھی جماعت سے انہوں نے طبلہ بجانے کی تربیت اپنے استاد ترویدی اور بھانوداس کی نگرانی میں شروع کی۔
وجے خشتی طبلہ سے اٹھنے والی آوازوں اور موسیقی کے جنون میں مبتلا ہوگئے اور اگلے کئی سال موسیقی اور نجی محفلوں میں اپنے استاد پنڈت سریش راولکر کی نگرانی میں طبلہ بجانے کی تکنیک سیکھنے لگے۔ اس کے بعد دیکھتے ہی دیکھتے وہ طبلے کے میوزیکل انداز اور تکنیک کے ماہر بن گئے۔
واضح رہے کہ وجے خشتی اپنی فنکاری سے لوگوں کا دل جیتنے کے ساتھ ساتھ ڈراموں، حب الوطنی گیت اور غزلوں کو طبلہ کی دھن سے چار چاند لگادیتے ہیں۔
ای ٹی وی بھارت سے گفتگو کے دوران وجے گووند خشتی نے بتایا کہ طبلہ میں بہت سارے قواعد ہوتے ہیں جس میں دہلی قاعدہ، راجستھان قاعدہ، مہاراشٹر قاعدہ اور دیگر کئی قاعدے شامل ہیں۔
طبلے کے تعلق سے انہوں نے بتایا کہ ان میں دو الگ الگ ڈرم ہوتے ہیں۔ ایک بڑا اور ایک چھوٹا۔ جو دائیں جانب ہوتا ہے اسے ڈیلن یا طبلہ کہتے ہیں اور بائیں جانب والا بیلان کہلاتا ہے۔ دونوں ڈرم مختلف آواز پیدا کرتے ہیں لیکن جب دونوں مل جاتے ہیں تو ایک انتہائی مسحور کن آواز پیدا کرتے ہیں جو بھارتی موسیقی کی بنیاد ہے۔
وجے خشتی نے بتایا کہ آلات موسیقی کی دنیا میں طبلہ کو گولڈن انسٹرومینٹ کہا جاتا ہے کیونکہ طبلہ کے ساتھ الٹو سکسو فون، ہارمونیم، پیانو اور ڈرم وغیرہ بجتے ہیں۔
انہوں نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ طبلہ ایک روحانی کشش رکھتا ہے اس لیے آج بھی اس کا نعم البدل نہیں ہے اور جو دوسرے آلات موسیقی ہیں وہ زیادہ تر الیکٹرونک ہوتے ہیں ان سے روحانی رغبت حاصل نہیں ہوتی۔
وجے خشتی نے مزید بتایا کہ لاک ڈاؤن اور عوامی تقریبات پر پابندیوں کی وجہ سے آلات موسیقی سے منسلک افراد معاشی پریشانی میں مبتلا ہوگئے ہیں۔ حالانکہ دیگر کاروبار کھل گئے ہیں لیکن ثقافتی تقاریب اور ہوٹلس کے پروگرام نہ ہونے کی وجہ سے فنکار معاشی بدحالی کا شکار ہیں۔ آلات موسیقی سے وابستہ افراد میں کچھ ایسے بھی ہیں جو گھر کا نظام چلانے کے لیے معمولی مزدوری کرنے پر مجبور ہیں۔
وجے خشتی نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ بیروزگاری اور تنگ دستی کے سبب بہت سارے فنکار اس شعبے سے دور ہورہے ہیں۔ آلات موسیقی بھارتی ثقافت کا ایک اہم حصہ ہیں اسے زندہ رکھنے کے لیے حکومت فنکاروں کو مالی امداد فراہم کرے۔