ممبئی: مہاراشٹر میں ایسے 14 ہزار اسکولوں کو بند کرنے کی تیاریاں کی جاری ہیں جہاں طلبہ کی تعداد کم ہے۔ یہ اسکول ریاست کے دور دراز دیہی اور قبائلی علاقوں میں واقع ہیں، جہاں کسانوں، مزدوروں، غریبوں اور عام لوگوں کے بچے تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ اگر ان اسکولوں کو بند کردیا گیا تو بہت سے بچے تعلیم سے محروم ہوجائیں گے۔ ریاست کی شندے وفڈنویس حکومت ان اسکولوں کو بند کرنے کی کارروائی کوفوری طور پر روکے۔ یہ مطالبہ آج یہاں مہاراشٹر پردیش کانگریس کمیٹی کے صدر نانا پٹولے نے کیا ہے۔Nana Patole On Maharashtra Schools
ناناپٹولے نے اس مطالبے کے لیے وزیراعلیٰ کومکتوب لکھا ہے۔ اپنے مکتوب میں انہوں نے کہا ہے کہ مہاراشٹرکو ملک کے اندر تعلیمی لحاظ سے ایک ترقی یافتہ اوربیدار ریاست کے طور پر جانا جاتا ہے۔ لاکھوں طلباء مختلف نامور تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم ہیں۔ ریاست کے طلبہ کے لیے پرائمری تعلیم سب سے بڑی بنیاد ہے، لیکن ریاستی حکومت خود بچوں کو پرائمری تعلیم سے محروم کر رہی ہے۔نانا پٹولے نے مزید کہا ہے کہ حقِ تعلیم قانون 2009 میں پارلیمنٹ میں پاس ہوا تھا۔ اس کے مطابق 6 سے 14 سال کی عمر کے ہر بچے کو قریبی اسکول میں داخلہ کے ساتھ مفت اور لازمی تعلیم فراہم کرنے کا حق دیا گیا ہے۔
ریاستی حکومت اس بات کو یقینی بنانے کی پابند ہے کہ اس عمر کے بچوں کو قریبی اسکولوں میں تعلیم حاصل ہو۔ پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں معاشی طور پر کمزور طبقوں کے لیے 25% ریزرویشن کے لیے بھی یہ شرط لاگو ہے۔ اس کے باوجود مہاراشٹر حکومت صفر سے 20 طلباء کی تعداد والے ضلع پریشد اسکولوں کو بند کرنے کا منصوبہ بنا رہی ہے۔ اس سے قبائلی پہاڑیوں اور دور دراز علاقوں میں رہنے والے بچوں کی تعلیم پر بہت زیادہ اثر پڑے گا۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر ان علاقوں میں اسکول بند ہوں گے تو اس علاقے کے بچے تعلیم کے لیے کہاں جائیں گے؟ حکومت کو سوچنا چاہیے کہ بچوں کے لیے گاؤں سے دور اسکول جانا کتنا مشکل ہوگا۔ اسکولوں کو بند کرنے کے منصوبے کی ہر علاقے میں مخالفت ہو رہی ہے۔ کانگریس پارٹی بھی ایسے فیصلے کی مخالفت کرتی ہے جو عام لوگوں کے حقوق کے خلاف ہے۔ریاستی حکومت کو دیہی علاقوں کے غریب ومحنت کش طبقے کے لوگوں کے بچوں کو اسکولی تعلیم سے محروم کرنے کا گناہ نہیں کرنا چاہیے۔